دسمبر 2003 (جرأت نیوز) پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے لیے مشکل تھا جب ان میں اور موت میں بس لمحوں کا وقفہ تھا۔ وہ بھی ایک مہینے میں دو بار۔ 14 دسمبر کے روز جنرل مشرف کے قافلے کو راولپنڈی میں آرمی ہاؤس جاتے ہوئے جھنڈا چیچی کے قریب ایک پل سے گزرے مشکل سے 30 ہی سیکنڈ ہوئے تھے کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ جنرل مشرف نے اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں لکھا کہ ’جیسے ہی میری تین ٹن وزنی آرمرڈ گاڑی ہوا میں اچھلی، میں فوراً سمجھ گیا کہ مجھے دہشت گردی کا سامنا تھا اور میں نشانے پر تھا۔‘
2001 میں القاعدہ کے امریکہ پر ان حملوں کے بعد افغانستان میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والی طالبان حکومت کی حمایت ترک کر کے پاکستان نے شدت پسند گروہوں کو سخت مشتعل کر دیا تھا۔
’ورلڈ ٹیررازم: این انسائیکلوپیڈیا آف پولیٹیکل وائلنس فرام اینشنٹ ٹائمز ٹو دی پوسٹ 9/11 ایرا‘ میں جیمز سائمنٹ نے لکھا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ان حملوں کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بنیادی اتحادی بن گیا۔
مشرف حکومت نے پاکستان اور متنازع ہمالیائی خطے کشمیر میں کئی شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی اور ان کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا۔
مشرف نے کہا کہ ’ہماری قوم کے لیے سب سے بڑا خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ یہ خطرہ انتہا پسندوں سے ہے۔ ہمیں ان تمام عناصر کے خلاف پوری قوت سے لڑنا ہوگا۔‘




