(جرأت نیوز)سابق وزیرِ خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر انتقال کر گئیں۔رپورٹ کے مطابق ان کی نماز جنازہ کل بعد نماز ظہر کراچی میں ادا کی جائے گی، صدر مملکت آصف علی زرداری نے سابق گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے معیشت اور مالیاتی نظم و نسق کے شعبے میں شمشاد اختر کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ انہوں نے مرحومہ کے درجات کی بلندی اور سوگوار خاندان کے لیے صبرِ جمیل کی دعا کی ہے۔وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر پاکستان کی معاشی تاریخ میں ایک باوقار، اصول پسند اور مدبر آواز تھیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مرحومہ ایک اعلیٰ درجے کی ماہرِ معیشت اور شاندار انسان تھیں جنہیں وہ ذاتی اور پیشہ ورانہ طور پر بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملکی معیشت کے انتظام میں مختلف اعلیٰ مناصب پر نہایت دیانت داری اور لگن سے خدمات انجام دیں۔سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ڈاکٹر شمشاد اختر کی قومی خدمات کو ہمیشہ احترام سے یاد رکھا جائے گا۔وفاقی وزیرِ خزانہ نے مرحومہ کے اہلِ خانہ، دوستوں اور ساتھیوں سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے 2 جنوری 2006ء کو بینک دولت پاکستان کی 14 ویں گورنر کا عہدہ سنبھالا، وہ اسٹیٹ بینک کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ انہیں بینکاری کا قومی اور بین الاقوامی وسیع تجربہ حاصل تھا۔گورنر اسٹیٹ بینک تقرر سے قبل وہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے بطور ڈائریکٹر جنرل، شعبہ جنوب مشرقی ایشیا وابستہ تھیں اور اس عہدے پر جنوری 2004ء سے کام کر رہی تھیں۔ قبل ازیں وہ اس شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھیں۔ وہ ایشیائی ترقیاتی بینک میں ڈائریکٹر، نظم و نسق، مالیات اور تجارت ڈویژن برائے مشرقی اور وسط ایشیا کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔
شمشاد اختر نے ایشیائی ترقیاتی بینک میں اپنے کیریئر کا آغاز 1990ء میں کیا اور مالی شعبے میں بطور سینئر اور مرکزی اسپیشلسٹ خدمات انجام دینے کے بعد 1998ء میں وہاں منیجر بن گئیں۔وہ 1998ء سے 2001ء تک ایشیائی ترقیاتی بینک کی کوآرڈی نیٹر برائے اپیک وزرائے خزانہ گروپ بھی رہیں۔انہوں نے بینک کی کئی کمیٹیوں میں خدمات انجام دیں جن میں تنظیمِ نو کمیٹی، اپیلز کمیٹی اور نگراں کمیٹی وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹ اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف سیکورٹیز کمیشن (آئی او ایس سی او) میں ایشیائی بینک کی طرف سے مکالمہ کیا اور نمائندگی کی۔ڈاکٹر شمشاد نے وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیا بشمول عوامی جمہوریہ چین کے مالی و اقتصادی امور پر وسیع مہارت حاصل کی۔ایشیائی بینک آنے سے قبل شمشاد اختر نے پاکستان میں عالمی بینک کے ریذینٹ مشن کے ساتھ بطور ماہر معاشیات دس سال کام کیا۔ وہ وفاقی اور سندھ حکومت دونوں میں محکمہ منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ عرصہ منسلک رہیں۔انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر کام کیے جن میں اقتصادی صورتحال کا تجزیہ، مالیات اور زر، اور صنعت و زراعت سمیت کلیدی شعبوں کی ساختی اصلاحات شامل ہیں۔انہوں نے ان موضوعات پر مقالات بھی تحریر کیے: پاکستان میں نظام آبکاری، حکومتوں کے مابین مالیاتی تعلقات کی صورتحال، غربت اور اس کی جہتیں، اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری، وغیرہ۔ ڈاکٹر شمشاد نے مالی منڈیوں میں تنوع لانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا جن میں زری پالیسی اور صنعت بینکاری کی کیفیت کا تجزیہ )عالمی بینک میں(، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی تشکیل نو، انشورنس کمیشن کی تشکیل نو شامل ہے۔انہوں نے پاکستان کے اسٹاک ایکسچینج سمیت نجی اداروں کے ساتھ بھی قریب رہ کر کام کیا۔ مالی منڈیوں کی اصلاحات پر وہ مرکزی بینکوں کو مشاورت فراہم کرتی رہی ہیں۔ وہ شعبہ بینکاری کی قانونی، ضوابطی اور ادارہ جاتی اصلاحات سے متعلق رہنے کے علاوہ بانڈ مارکیٹ کے فروغ کے ذریعے طویل مدتی رقوم کے استعمال سے بینکاری صنعت میں تنوع لانے پر بھی مشاورتی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔حیدر آباد میں پیدا ہونے والی شمشاد اختر نے ابتدائی تعلیم کراچی اور اسلام آباد میں حاصل کی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ شاندار رہا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1974ء میں بی اے اکنامکس، اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس سی اکنامکس کیا۔ انہوں نے یونیورسٹی آف سسیکس سے 1977ء میں ڈیولپمنٹ اکنامکس میں ایم اے، اور برطانیہ کے پیسلے کالج آف ٹیکنالوجی سے 1980ء میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کیا۔ وہ فلبرائٹ اسکالر )پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ( ہیں اور 1987ء میں ہارورڈ یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کی وزٹنگ فیلو رہیں۔ڈاکٹر شمشاد اختر نے بین الاقوامی کانفرنسوں/ سیمیناروں/ سمپوزیم میں معاشیات اور مالیات پر متعدد مقالات پیش کیے ہیں۔ تحقیق میں ان کی دلچسپی کا خاص میدان زری و مالیاتی پالیسی، بینکاری اور سرمایہ منڈی، بین الاقوامی مالیاتی ساخت، ضوابط اور نگرانی، اور صنعتی و کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ ہے۔




