اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت انتخابات کے انعقاد تک ملتوی کردی، عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کیسز سمیت دیگر مقدمات زیر التوا ہیں مناسب ہے اس کیس کو عام انتخابات کے بعد سنا جائے
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف ریفرنس پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہوسکتی، عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پر عمل کا نہیں ہے، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے، اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے۔
جسٹس مظہر نے کہا کہ اگر اس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہو گا؟
اس دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے تاہم چیف جسٹس نے انہیں بات کرنے سے روک دیا اور عدالتی معاون کو بات جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے قصوری سے کہا کہ آپ کو ان پر کوئی اعتراض ہے تو لکھ لیں۔
مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ذولفقار بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی، بھٹو کو 4 تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس کی ہدایت پر جسٹس نسیم علی شاہ کا ٹی وی انٹرویو کمرہ عدالت میں چلایا گیا، عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستی دیکھ رہی ہے عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واحد نکتہ یہی ہے اس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کے بارے یہ تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کرسکتے، بھٹو کیس میں بنچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔
اس دوران احمد رضا قصوری نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے اس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔ قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفی دے دیتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس انٹرویو میں تو مکمل بات ہی نہیں ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یوٹیوب سے اصل پروگرام ہٹا دیا گیا ہے آپ ایسا کریں متعلقہ چینل والا ڈیٹا کاپی کرالیں، آپ سارے انٹرویو کو دیکھ کر متعلقہ حصہ ہمیں دے دیں، ہم ابھی عدالتی معاون مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصور وار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میری نظر میں ہمیں اپنی تاریخ کو درست کرنا چاہیے، اسٹگما ایک خاندان پر نہیں لگا بلکہ اداروں پر بھی لگ چکا ہے اس پر مخدوم خان نے کہا کہ آپ نے بالکل درست بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس مقدمے کو انتخابات کے بعد سنیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میری ہدایات تو ہیں کہ جلد سنا جائے اس پر جسٹس جمال خان نے کہا کہ دو الیکشن تو پہلے ہی گزر چکے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت پہلے معاونین کو سن لے، اٹارنی جنرل ، مجھے اور رضا ربانی صاحب کو بعد میں سنا جائے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ رضا ربانی نے بتایا کہ صنم بھٹو اور آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں، زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں، بھٹو ریفرنس کیس کی سماعت عام انتخابات کے بعد ہوگی۔
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ میں الیکشن کیسز سمیت دیگر مقدمات زیر التوا ہیں مناسب ہے اس کیس کو عام انتخابات کے بعد سنیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔