نیو یارک: ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں بھرا پانی پلاسٹک کے لاکھوں زہریلے خوردبینی ذرات سے آلودہ ہوتا ہے۔
پلاسٹک کی بوتل سے پانی پینے کا مطلب ہے کہ اپنے جسم کو پلاسٹک کے باریک ذرات سے آلودہ کیا جارہا ہے ہے اور اس حوالے سے سائنس دانوں کو تشویش ہے کہ یہ ذرات ہمارے جسم میں جمع ہو کر صحت پر نامعلوم نتائج مرتب کر سکتے ہیں۔
ماضی کے مطالعوں میں نینو پلاسٹک کا تعلق پہلے ہی کینسر، بانجھ پن اور پیدائشی نقائص کے ساتھ بتایا جا چکا ہے۔
اب ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے جدید لیزر اسکیننگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک لیٹر پانی کی بوتل میں اوسطاً 2 لاکھ 40 ہزار پلاسٹک کے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جبکہ اتنی ہی مقدار میں نل کے پانی میں ان ذرات کی اوسط تعداد 5.5 تھی۔
یونیورسٹی آف کولمبیا کے محققین نے امریکا میں فروخت ہونے والی تین بڑے برانڈز کی پانی کی بوتلوں کا جائزہ لیا اور لیزر کا استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھا کہ پانی بھری بوتلوں میں 100 نینو میٹر(نینو میٹر سائز کے پلاسٹک کے ذرات مائیکرومیٹر پلاسٹک سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں) سائز تک کے کتنے پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں۔
سائنس دانوں کی جانب سے ان ذرات کو ممکنہ طور پر زہریلا قرار دیا گیا ہے کیوں کہ یہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ یہ براہ راست خون کے خلیوں اور دماغ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
یہ خوردبینی ذرات فیتھیلیٹس کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ کیمیکلز پلاسٹک کو مزید پائیدار اور لچکدار بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
امریکا میں فیتھیلیٹس منکشف ہونے کے سبب ہر سال ایک لاکھ کے قریب قبل از وقت اموات واقع ہوتی ہیں۔ یہ کیمیکل جسم میں ہارمون کی پیداوار میں مداخلت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔