کوئٹہ: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بلوچستان کے تمام 28 ہزار ٹیوب ویلز کو تین ماہ میں سولر سسٹم پر منتقل کردیں گے جس پر 55 ارب کی لاگت آئے گی، اگلے مرحلے میں ملک بھر کے دس لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کریں گے۔
یہ بات انہوں ںے بلوچستان کابینہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں گورنر، وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرا و دیگر موجود تھے۔
انہوں ںے کہا کہ بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے گیا اسے ترقی دیے بغیر پاکستان کی ترقی مکمل نہیں ہوگی، بلوچستان کے ٹیوب ویلز کے لیے پانچ سو ارب روپے دیے ہیں، منصوبے سے 28 ہزار کسانوں کو فائدہ ہوگا، منصوبے پر ستر فیصد رقم وفاقی حکومت ادا کرے گی جبکہ تیس فیصد رقم صوبائی حکومت دے دی، یہ منصوبہ تین ماہ میں مکمل ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی کئی برس میں بلوچستان کے ٹیوب ویلز کے بجلی کے بلوں کی مد میں پانچ سو ارب روپے ادا کرچکا ہے ہرسال بجلی کے بلوں کی مد میں ستر سے اسی ارب روپے ادا کیے گئے پیسہ یہاں آتا رہا مگر بجلی کے بل ادا نہیں ہوئے، اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ ہر سال وفاق بجلی کے بلوں کی مد میں بھاری رقومات ادا کرے، سولر پر ٹیوب ویلز منتقل ہونے سے بجلی کی مد میں ادا کی جانے والی رقومات میں کمی آئے گی، وفاق کا بوجھ بھی کم ہوگا، بلوچستان نے حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ تین ماہ میں صوبے بھر کے ٹیوب ویلز سولر سسٹم پر منتقل ہوجائیں گے، 28 ہزار ٹیوب ویلز کی اتنے کم وقت میں منتقلی آسان نہیں ہے اس کی ذمہ داری میں صوبائی کابینہ کو سونپتا ہوں۔
انہوں ںے کہا کہ ملک بھر میں دس لاکھ ٹیوب ویلز ہیں جو تیل کی بجلی پر چلتے ہیں، صرف ان ٹیوب ویلز پر درآمد کیے گئے تیل کی مالیت سالانہ 3.5 ارب ڈالر ہے، ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے جلد ملک بھر کے لیے ماڈل لائیں گے، ان کی تیل سے سولر پر منتقلی کے لیے کسانوں کو آسان شرائط پر قرض فراہم کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بجٹ میں بلوچستان کے دانش اسکولوں کے لیے بھی رقم مختص کی ہے، دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کو بھی این ایف سی میں پیسہ ملتا ہے مگر اس کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے مسائل کے حل کے لیے یہ رقم ناکافی ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان سے ایک ہزار بچے زراعت کی تعلیم کے لیے چین روانہ ہوں گے اس میں تمام صوبوں کے مقابل بلوچستان کا حصہ دس فیصد زیادہ ہوگا۔
انہوں ںے یہ بھی کہا کہ ملک کی بہتری کے لیے سخت فیصلے کررہے ہیں، دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو ڈوب مرنے کا مقام ہوگا، کڑوے فیصلے نہ کیے تو تین سال بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا