انقرہ: ترکیہ میں صدر طیب اردوان کے سخت مخالف اور 2016 کے ناکام فوجی بغاوت کے ماسٹر مائنڈ، عالم دین فتح اللہ گولن 83 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
ترک میڈیا اور گولن سے وابستہ ایک ویب سائٹ نے تصدیق کی ہے کہ فتح اللہ گولن مختصر عرصے علالت کے بعد امریکا کے ایک اسپتال میں دم توڑ گئے۔
فتح اللہ گولن نے ترکیہ اور دیگر ممالک میں ایک طاقتور اسلامی تحریک ہزمت کی بنیاد رکھی تھی اور ایک وقت میں وہ ترک صدر طیب اردوان کے اتحادی تھے۔
تاہم دونوں کے درمیان ہونے والے اختلافات کے نتیجے میں فتح اللہ گولن حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوگئے۔
ترک صدر نے 2013 میں کرپشن الزامات میں اپنی جماعت کے 12 ارکان کی گرفتاری کو فتح اللہ گولن کی ملک میں تن تنہا حکومت کرنے اور اپنا ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش بتایا تھا۔
جس کے بعد اتحاد ٹوٹ گیا اور ترک صدر کے حکم پر ملک میں موجود فتح اللہ گولن کی جماعت کے زیر انتظام تمام اسکولوں اور کالجوں کو بند کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب فتح اللہ گولن نے 2014 میں امریکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی میں گزشتہ دو برسوں سے آمریت قائم ہے۔
ترک صدر طیب اردوان کی حکومت نے 2015 میں فتح اللہ گولن کو انتہائی مطلوب دہشت گرد قرار دیدیا تھا اور ان کی تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر عملاً پابندی لگادی تھی۔
اگلے ہی برس ترکیہ میں ناکام فوجی بغاوت ہوئی جس کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے ترک صدر نے امریکا کو فتح اللہ گولن کی حوالگی کی باضابطہ درخواست کی تھی۔
خیال رہے کہ فتح اللہ گولن 1999 میں ہی امریکا چلے گئے اور مرتے دم تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی۔
ترک صدر طیب اردوان نے 2016 میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کا ذمہ دار فتح اللہ گولن کو ٹھہرایا تھا تاہم انھوں نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
فتح اللہ گولن تعلیمی انقلاب کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ جس کے لیے دنیا بھر ماڈل اسکولز قائم کیے اور تدریس و اشاعت کے ادارے بھی قائم کیے۔
فتح اللہ کی کتب اور خطاب پر مشتمل کتابچوں کی تعداد 44 ہے جن میں سب سے مشہور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھی گئی کتاب ہے.