پشاور:پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو آزاد قرار دینے کے خلاف درخواست پر الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیا گیا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کو آزاد قرار دینے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس فرخ جمشید پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل بشیر خان وزیر ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی ممبران کو آزاد قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت دیگر ارکان نے الیکشن پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑا اور کسی اور پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لیا گیا اور پی ٹی آئی امیدواروں نے مختلف نشانات سے الیکشن میں حصہ لیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں پی ٹی آئی کو غیر سیاسی جماعت قرار نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق انتخابی نشان لینے سے پارٹی ختم نہیں ہوتی۔
انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ الیکشن رولز 2017 میں انتخابی نشان لینے سے سیاسی جماعت ختم ہوتی ہے، الیکشن کمیشن نے اس کا سہارا لیا اور پی ٹی آئی ممبران کو آزاد قرار دیا۔ ایکٹ کے ساتھ رولز متصادم ہو، تو پھر ایکٹ کو ترجیح دی جائے گی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے الیکشن میں خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ نشتیں جیتی ہیں۔ مخصوص نشستوں میں پی ٹی آئی کو نظرانداز کیا گیا اور دوسری جماعتوں کو نشستیں دی گئیں۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ خان نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 21 جولائی تک ملتوی کردی۔