پشاور ہائی کورٹ نے زرتاج گل کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما عبدالطیف کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس محمد فہیم ولی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔
وکیل الیکشن نے کہا کہ درخواست گزار ممبر قومی اسمبلی ہے، اے ٹی سی نے سزا سنائی، جب کسی کو سزا ہو جائے تو وہ پبلک آفس ہولڈ نہیں کرسکتا۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اسحاق ڈار کیس میں لاہور ہائیکورٹ قرار دے چکی یے کہ اگر کسی کو سزا ہوجائے تو پھر بھی ان کو حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ آج عدالت کے سامنے چھ کیسز ہیں، عمر ایوب، شبلی فراز کی دو دو درخواستیں ہیں، 5 اگست کو الیکشن کمیشن نے درخواست گزاروں کو نااہل کیا اور 7 اگست کو اسپیکر نے ان کی سیٹ خالی قرار دے دی، کسی کو سزا بھی ہو جائے تو الیکشن کمیشن تین مہینے میں فیصلہ کرے گا، زرتاج گل بھی ممبر قومی اسمبلی ہے، اس کا بھی کیس ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ اس طرح کے اور کیسز بھی تھے اس پر فیصلہ آچکا ہے،
عدالت نے کہا کہ زرتاج گل کا کیس پہلے سنتے ہیں، باقی بعد میں سنیں گے۔
پشاور ہائی کورٹ میں زرتاج گل کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست پر سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس محمد فہیم ولی نے کی۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزار کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے، تمام ڈاکومنٹس موجود ہیں، اے ٹی سی سزا کے بعد الیکشن کمیشن نے 5 اگست کو نااہل کیا، درخواست گزارہ ڈیرہ غازی خان سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہے، ایک ہی نوٹیفکیشن پر ممبران کو الیکشن کمیشن نے نااہل کیا۔
وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور عدالت نے اس کو سنا، یہاں پر اسی نوٹیفیکیشن کے خلاف عمر ایوب اور شبلی فراز کی درخواستیں پہلے سے دائر تھیں، اس وجہ سے ہم نے بھی یہاں پر درخواست دائر کی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ درخواست گزار خیبرپختونخوا میں پیدا ہوئی، 9 مئی کے بعد درخواست گزار خیبرپختونخوا میں رہ رہی ہے، اگر یہاں پر درخواست گزارہ کا کیس عدالت نہ سنتی تو پھر ہم دوسری ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے، درخواست گزارہ کو سزا بھی ان کی غیر موجودگی میں دی گئی ہے، درخواست گزارہ نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ اپیل کب سماعت کے لئے مقرر ہے؟ وکیل درخواست گزار نے جواب دیا کہ ابھی سماعت کے لئے مقرر نہیں ہے، ہوسکتا ہے اگلے ہفتے مقرر ہوجائے، corrective jurisdiction میں بھی میں آسکتا ہوں، کیونکہ یہاں پر پہلے سے اسی طرح کے کیسز زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 31 جولائی کو اے ٹی سی فیصلہ سناتی ہے، الیکشن کمیشن کو کسی نے ریفرنس نہیں بھیجا اور 5 اگست کو الیکشن کمیشن نے درخواست گزارہ اور دیگر کو نااہل قرار دیا، الیکشن کمیشن نے مجھے سننے کا موقع نہیں دیا، اور نااہلی کا نوٹفیکیشن جاری کیا، الیکشن کمیشن سینٹرلائز ہے، اس لئے یہ ہائیکورٹ اس درخواست کو سن سکتی ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر لا الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ اسی طرح کی اور درخواستوں پر اس عدالت نے فیصلے کئے ہیں، ان کی درخواست اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، یہ لاہور یا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن میں کیوں نااہل کیا، کیا الیکشن کمیشن کو جلدی تھی؟ ڈپٹی ڈائریکٹر لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ایک ہی کیس میں سزا ہوئی تھی، اس وجہ سے الیکشن کمیشن نے ایک نوٹفیکیشن کیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزارہ کو سزا اے ٹی سی فیصل آباد سے ہوئی، ان کا کیس یہاں پر قابل سماعت نہیں ہے، درخواست گزارہ کو سزا ہوئی، ابھی تک مفرور ہے۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ ان کو کیوں گرفتار نہیں کررہے، آپ بھی تو عدالت کے آرڈر نہیں مانتے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اس عدالت نے ان کو حفاظتی ضمانت دی۔
جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت نے تین دن کی ضمانت دی تھی، اس کے بعد آپ نے کیا کیا۔
وکیل شکایت کنندہ نے کہا کہ درخواست گزارہ مفرو ہے، عدالت نے سزا سنائی، ابھی تک خود کو سرنڈر نہیں کیا، ان کو سزا ہوئی ہے، یہ پبلک آفس کو استعمال نہیں کرسکتی۔
وکیل درخواست گزار سید سکندر حیات شاہ نے کہا کہ صاحبزداہ حامد رضا اور دیگر کی جو پانچ درخواستیں عدالت نے واپس کی ہیں، اس میں ہم نظر ثانی درخواست دائر کررہے ہیں۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت عالیہ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔