کراچی: شہر قائد میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا جن پولیس کے قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا تو دوسری جانب بھتہ خوروں کے مضبوط اور منظم نیٹ ورک سے تاجر برادری خوفزدہ دکھائی دیتی ہے، جس کے باعث کاروباری افراد نے اپنی سرگرمیاں بھی محدود کر دی ہیں۔
رواں سال کے صرف پہلے 22 روز میں بھتہ خوری کے 13 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، مگر بھتہ خوری میں ملوث ملزمان کی گرفتاری میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام دکھائی دیتے ہیں، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ بھتہ خوروں کا انٹرنیشل گروپ حرکت میں آیا ہوا ہے اور یہ غیر ملکی نمبروں سے تاجروں کو خوفزدہ کر کے بھتہ وصول کرتا ہے۔
بھتہ خور پڑوسی ممالک (ایران اور افغانستان) سے بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ ایران میں لیاری گینگ وار کے ملزمان جو کہ پاکستان کو کئی مقدمات میں مطلوب ہیں، یہ گروپس بھتہ خوری کی وارداتوں میں ملوث ہیں، اس صورتحال کے باعث تاجروں نے پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صورتحال سے آگاہ کرنا چھوڑ دیا ہے اور خفیہ طریقے سے بھتہ خوروں کو رقم فراہم کی جارہی ہے۔
نئے سال 2024 کے صرف 22 روز میں بھتہ خوری کے 13 مقدمات درج ہوچکے ہیں، جس میں ایک کیس کو چالان بھی کیا گیا ہے جبکہ بھتہ خوری میں ملوث 12 ملزمان کو اب تک گرفتار کیا جاچکا ہے۔
اس کے باوجود بھتہ خوری کی وارداتوں میں کمی نہیں آسکی۔ پولیس چیمبر لائژن کمیٹی کے چیف حفیظ عزیز کی سربراہی میں بھتہ خوری کی بڑھتی وارداتوں کے پیش نظر تاجروں کو سہولت دینے کیلئے کراچی چیمبر آف کامرس میں ایک سیل بھی تشکیل دیا گیا ہے، جس میں سندھ رینجرز اور پولیس تاجروں کو بھتہ خوروں کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے ، پی سی ایل سی چیف حفیظ عزیز نے بتایا کہ کراچی چیمبر آف کامرس میں بھتہ خوری کی بڑھتی وارداتوں کے پیش نظر ایک اجلاس ہوچکا ہے جس میں پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی ہے۔
تاجر برداری بھتے کے معاملے پر خوفزدہ ہے اور شکایات درج کرانے سے انکاری ہے، جس کی وجہ سے ایسے گروپس کی نشاندہی ممکن نہیں ہورہی، حفیظ عزیز نے بتایا کہ انسداد بھتہ خوری سیل کو ایک ہفتے میں دو شکایات موصول ہوئی ہیں، جس میں کھجور مارکیٹ اور صدر کے ایک شاپنگ سینٹر میں کاروبار کرنے والے تاجروں کو خوفزدہ کر کے بھتہ طلب کیا گیا۔
ان شکایات کی روشنی میں سندھ رینجرز اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 2 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا ہے ، پی سی ایل سی چیف حفیظ عزیز کا کہنا تھا کہ تاجر بغیر خوفزدہ ہوئے رابطہ کرسکتے ہیں اور ان کا نام صیغہ راز رکھا جائے گا۔ دوسری طرف ایس ایس پی سٹی امجد حیات کا کہنا ہے کہ پولیس بھتہ خوروں کو نکیل ڈالنے میں سنجیدہ ہے۔
گزشتہ دنوں اولڈ سٹی ایریا میں بھتہ خوروں نے اسٹیل مارکیٹ میں ایک تاجر کو قتل کیا تھا، جس کے ملزمان پولیس مقابلے میں مارے جاچکے ہیں مگر بھتے کی روک تھام کیلئے بنائے گئے خصوصی سیل اسپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، جس نے بھتہ خوری کی بڑھتی وارداتوں کی روک تھام کیلئے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی ، ابھی گزشتہ دنوں اس سیل کے ہاتھوں ایک شہری کی ہلاکت کے بعد ایس آئی یو کے ایس ایس پی ، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سمیت دیگر افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ شہری کی ہلاکت میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
شہر کراچی میں صرف ایک ماہ کے دوران 3 تاجروں کو قتل کیا گیا ہے ، کراچی پولیس کی جانب سے امن و امان کو بہتر کرنے کا دعویٰ تو ضرور کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر شہر قائد کی پولیس اسٹریٹ کرائم ، منشیات فروشی اور اب بھتہ خوری کا جن بوتل میں بند کرنے میں بھی ناکام ہے۔
بھتہ خوروں کے منظم نیٹ ورک نے بھتہ نہ دینے پر ایک ماہ میں 3 تاجروں کو قتل کیا ہے جس سے ان کی دیدا دلیری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بھتہ خوروں کا نیٹ ورک ایران اور افغانستان سے آپریٹ کیا جارہا ہے، جس کے توڑ کیلئے سندھ پولیس کی جانب سے اقدامات نا کافی ہیں ، شہر کراچی میں ضلع سٹی کی مصروف ترین مارکیٹ ٹمبر مارکیٹ میں دن دیہاڑے اسٹیل کے تاجر شہزاد جعفرانی کو ان کے آفس میں دن دیہاڑے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ، قتل میں ملوث گینگ وار کے ایک کارندے کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جبکہ ضلع سینٹرل کے علاقے نیو کراچی صنعتی ایریا میں کپڑے کے تاجر سلیم مون کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ان کا جوان بیٹا اسامہ مون زندگی کی بازی ہار گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق کپڑے کے تاجر سلیم مون کی گاڑی پر فائرنگ بھتے کے تنازع پر کی گئی جس کے نتیجے میں ان کا بیٹا قتل ہوا، خوفزدہ تاجر نے واقعہ کا مقدمہ بھی درج نہیں کرایا جس کے بعد سرکار کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔
اسی طرح ضلع سینٹرل نیو کراچی صنعتی ایریا میں بھی بلال نامی دھاگے کے تاجر کو دکان پر فائرنگ کر کے شدید زخمی کیا گیا، جس کے ملزمان کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا اور یہ واردات بھی بھتے کا شاخسانہ نکلی تھی جبکہ پولیس نے گزشتہ سال دسمبر میں عزیز آباد کے علاقے میں ڈائنگ فیکٹری کے مالک سے 2 کروڑ روپے بھتہ طلب کرنے والے ملزمان کو بھی گرفتار کیا ہے۔
سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صرف دسمبر کے مہینے میں بھتہ خوری کے 11 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ کراچی پولیس کی جانب سے بھتہ خوری کے واقعات میں ملوث بھتہ خوروں کو نکیل ڈالنے کیلئے سی آئی اے کی جانب سے اسپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) قائم کیا گیا ہے مگر یہ یونٹ بھی بھتہ خوروں کو نکیل ڈالنے یا تاجروں کو بھتے کی پرچیاں دینے والے ملزمان کی نشاندہی سے قاصر ہے۔
اسپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ نے سال 2023 میں بھتہ خوری کے 139 مقدمات کی تفتیش کی جس میں 69 ملزمان کو چالان کیا گیا اور 22 مقدمات کو ’’سی کلاس‘‘ یعنی کینسل کلاس کیا گیا ، ان مقدمات میں 10 کیسز کو بھتہ خوری کے جھوٹے مقدمے کے باعث ختم کر دیا گیا اور 23 کیسز کو ’’اے کلاس‘‘ کر دیا گیا اور 123 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا۔