اسلام آباد: آئی ایم ایف نے صنعتوں ژکیلیے بجلی کی قیمتوں میں کمی، گردشی قرضے کے پانچویں حصے سے زیادہ کی ادائیگی اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے 268 ارب روپے کے قرض کو حکومتی قرضوں کا حصہ بنانے کی عبوری حکومت کی تجاویز کی فوری طور پر توثیق نہیں کی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے اس قدر جلد بازی کی وجوہات کے بارے میں بھی استفسار کیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن عبوری حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری پر فیصلے سے پہلے ہی روک چکا ہے۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے 3اہم تجاویز کے معاشی اور قانونی طور پر قابل عمل ہونے کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کیں۔ آئی ایم ایف نے دو ورچوئل میٹنگز کیں لیکن ان کے نتائج پاکستانی حکام کی توقعات سے کم تھے۔ ان تجاویز پر بات چیت کا اگلا دور پاکستانی حکام کی جانب سے اضافی معلومات فراہم کرنے اور آئی ایم ایف کے اندرونی جائزے کے بعد ہوگا۔
آئی ایم ایف نے تینوں تجاویز کو نہ تو مسترد کیا اور نہ ہی قبول کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دو ملاقاتوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی ایم ایف منتخب حکومت کے دور میں اس پر مزید غور کرے گا۔ نگراں حکومت عہدہ چھوڑنے سے پہلے تینوں تجاویز پر پیشرفت کی خواہشمند ہے۔ یہ ملاقاتیں انتخابات سے صرف تین دن قبل پاکستانی حکام کی درخواست پر ہوئیں۔
وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ کیا آئی ایم ایف نے تینوں تجاویز کو کلیئر نہیں کیا اور مزید معلومات مانگی ہیں۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا بنیادی اعتراض پی آئی اے کے قرضوں کو حکومتی قرض بنانے کی فوری ضرورت پر تھا۔ حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ادارہ نجکاری کے لیے تیار ہے اور اس کی آئندہ آمدنی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہو گی لیکن پھر بھی وہ نگران سیٹ اپ کے خاتمے سے قبل 268 ارب روپے کو حکومتی قرضوں کا حصہ بنانا چاہتی تھی۔
آئی ایم ایف پی آئی اے کی نجکاری کے ممکنہ وقت اور کم از کم ریزرو قیمت کے بارے میں مزید وضاحت چاہتا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا استفسار تھا کہ قرضے کی ادائیگی کے لیے پی آئی اے کی نجکاری کا انتظار کیوں نہ کیا جائے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پاکستان اسٹیٹ آئل کے قرضوں پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ آئی ایم ایف کو کمرشل بینکوں اور وفاقی حکومت کے درمیان 268 ارب روپے کے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس مفاہمت کے تحت، حکومت پی آئی اے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو اصل رقوم کی ادائیگیوں کے لیے استعمال کرے گی اور اگر فنڈز ناکافی ہوئے تو بجٹ کا سہارا لے گی۔