پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست خارج کردی۔
ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں گئے اور الگ الگ نشانات دیئے گئے، تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، قومی اسمبلی میں 86, کے پی میں 90, پنجاب میں 107, سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک ممبر نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، سنی اتحاد کونسل 78 سیٹوں کی حقدار ہے، ہمارا کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے، خیبرپختونخوا میں سنی اتحاد کونسل کی 26 مخصوص نشستیں بنتی ہے اور قومی اسمبلی میں کے پی سے 8 بنتی ہی۔
یرسٹر ظفر نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست کیا کہ یہ سیٹیں ہمیں دے دیں، بالکل ایسا جیسے ایک خالی زمین ہوں اور کوئی آئے اس پر قبضہ کرلیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آپ قبضہ پر زیادہ زور دے رہے ہیں, یہ تو الیکشن کمیشن نے دیے۔
علی ظفر نے دلائل دیے کہ اگر ایک جماعت الیکشن نہ لڑے تو وہ پھر بھی پولیٹیکل پارٹی ہوتی ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ الیکشن لڑے، سنی اتحاد کونسل کے پاس انتخابی نشان ہے اور اہل ہے الیکشن لڑنے کے لیے، پولیٹکل پارٹی بن جانے سے اس کے پاس باقی حقوق آتے ہیں مطلب ایک پارٹی جب بن جائے تو وہ الیکشن لڑ سکتی ، بائیکاٹ کر سکتی ہے حکومت سازی کرسکتی ہے، یہ وہ تمام حقوق ہیں جو آرٹیکل 17 کے بعد ہمیں حاصل ہیں، چوہدری پرویز الٰہی کیس میں پارلیمانی اور پولیٹیکل پارٹی کی تعریف موجود ہے، باپ پارٹی کو بھی 2018 کے الیکشن میں سیٹ دی گئیں تھیں۔
جسٹس سید اشد علی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی میں فرق اتنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس نشان نہیں ہے اور سنی اتحاد کونسل کے پاس نشان ہے، دونوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، آپ جب جوائن کررہے تھے تو آپ کو پتہ تھا کہ انھوں نے بھی لسٹ نہیں دیا, آپ اس پر سمجھا دیں، مخصوص نشستیں تب ملتی ہے جب سیاسی جماعتوں نے سیٹ جیتی ہوں، سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ جیتی ہی نہیں، قانون میں لفظ سیکیور آیا ہے، اپ نے سیٹیں سیکیور نہیں کیں، اگر آپ نے کوئی سیٹ نہیں جیتی تو پھر کیا آزاد امیدوار جوائن کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستیں؛ ایسا لگتا ہے جیسے مال غنیمت تقسیم ہوا، پشاور ہائیکورٹ
جسٹس ارشد علی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے سے آپ نے پی ٹی آئی کیس کمزور نہیں کیا۔؟ آپ کو پتہ تھا کہ انھوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد آپ کے پاس پھر بھی وقت تھا آپ انٹرا پارٹی الیکشن کر لیتے، آپ نے نہیں کیا۔
بیرسٹر ظفر نے جواب دیا کہ ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کیا لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے اسکو مانا نہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے پوچھا کہ آپ کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں تو پھر دوسروں کو بھی کیوں نہیں دی جاسکتیں؟
جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ قانون میں یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کو نشستیں ملیں گی، یہ نہیں کہ ایک سیاسی جماعت باہر بیٹھی ہو اور پھر آزاد آکر اس کو جوائن کریں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، اس عدالت میں زیر سماعت درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے لیے ہیں جو کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواستیں بھی مماثلت رکھتی ہیں، سب میں ایک ہی درخواست گزار ہے۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مبشر منظور نے دلائل دیے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی ہے، پولیٹکل پارٹی کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو، یہ نہیں کہ اسی الیکشن میں لازمی حصہ لیا ہو، اگر 2018 میں بھی حصہ لیا تو پھر بھی وہ پولیٹکل پارٹی ہے۔
تمام وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر پانچ رکنی بینچ نے مشترکہ فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کو خارج کردیا۔