کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سگے بھائیوں سمیت 11 لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواستوں پر جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے اور شہریوں کو بازیاب کرانے کے لیے تحقیقات اور اقدامات تیز کرنے کا حکم دے دیا۔
زرائع کے مطابق ہائیکورٹ میں سگے بھائیوں سمیت 11 لاپتا افراد کی بازیابی کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ وکلا نے موقف دیا کہ شہریوں کو مختلف علاقوں سے حراست میں لیا گیا ہے، بازیابی کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے صوبائی حکومت اور پولیس کارکردگی پر اظہار برہمی کیا۔ جسٹس ارشد حسین خان نے ریمارکس دیئے کہ لاپتا افراد کے اہل خانہ کے دکھ کا کسی کو احساس ہی نہیں، ذرا سوچیں! لاپتا افراد کے گھر والوں پر ایک ایک لمحہ گزارنا کتنا مشکل ہوگا۔
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کے بازیابی اور معاوضے کی ادائیگی سے متعلق عدالت کے کیا احکامات تھے کسی افسر کو معلوم ہی نہیں، پولیس اور صوبائی حکومت کے رویئے پر افسوس ہوتا ہے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ جبری طور پر لاپتا افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دیا جائے کیا 3 مہینے سے پولیس افسران اور سیکرٹریز سو رہے تھے؟
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بندے کا پتا چل گیا ہے مگر اگلی سماعت پر اس کا تبادلہ کردیا گیا، یہ سب عدالت کے ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے؟ پولیس افسر نے بتایا کہ مختلف اداروں کو خطوط لکھ چکے ہیں، جواب نہیں ملا۔
جسٹس ارشد حسین نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں نہیں معلوم کب اور کیسے ہوگا، لاپتا افراد کی تحقیقات اور بازیابی کے لیے اقدامات تیز کیے جائیں۔
عدالت نے لاپتا افراد کے کیس کے بارے میں احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر وفاقی اور صوبائی حکومت کے وکلا پر بھی اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وکلا کیس لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں، کیسز کے بارے انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ جن افراد کی جبری گمشدگی کا تعین ہوچکا ہے، صوبائی حکومت انہیں معاوضہ دے دی گی، کچھ افراد کے اہل خانہ نے محکمہ داخلہ کو درخواستیں نہیں دیں۔
محکمہ داخلہ کے فوکل پرسن نے کہا کہ جن کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، انہیں معاوضہ دینے کے لیے سمری وزیر اعلی سندھ کو ارسال کردی ہے۔
عدالت نے جبری طور پر لاپتا افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے سید معصب، طاہر علی، جاوید، معاذ، طلحہ اور دیگر کی فوری بازیابی کے لیے اقدامات کا بھی حکم دیا.