سیاسی وجوہات کے سبب دیامیربھاشا ڈیم پر بیرونی سرمایہ کار آنے کو تیار نہیں، قائمہ کمیٹی کو بریفنگ

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کو بتایا گیا ہے کہ سیاسی وجوہات کی وجہ سے کوئی بیرونی سرمایہ کار بات کرنے کو تیار نہیں، سیلاب زدگان کے لیے 10 ارب ڈالر کے وعدے ہوئے ملے اب تک 3 ارب ڈالر ہیں۔

دیامیربھاشا ڈیم پر سیاسی وجوہات کی وجہ سے کوئی بیرونی سرمایہ کار بات کرنے کو تیار نہیں، ہم نے اوپیک کے ایک اجلاس کے موقع پر جی سی سی آئی ممالک کے نمائندوں سے بات کی، اس وقت دیامیربھاشا ڈیم پر صرف ترقیاتی پروگرام سے فنڈز استعمال ہورہے ہیں۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور ڈویژن کا اجلاس منعقد ہوا سیکرٹری اقتصادی امور ڈویژن نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہا کہ دیامیربھاشا ڈیم پر سیاسی وجوہات کی وجہ سے کوئی بیرونی سرمایہ کار بات کرنے کو تیار نہیں، ہم نے اوپیک کے ایک اجلاس کے موقع پر جی سی سی آئی ممالک کے نمائندوں سے بات کی، اس وقت دیامیربھاشا ڈیم پر صرف ترقیاتی پروگرام سے فنڈز استعمال ہورہے ہیں۔

انہوں ںے بتایا کہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے جنیوا کانفرنس کے ذریعے کیے گئے دس ارب ڈالر کے وعدے تھے، ابھی ہمیں دس ارب ڈالر کے وعدوں میں سے تین ارب ڈالر ریلائزڈ ہوئے ہیں۔

کمیٹی نے سیلاب زدگان کی امداد کیلیے بیرونی امداد پر آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔

سیکریٹری اقتصادی امور نے کہا کہ ایک وہ قرض ہے جو حکومت خود بینکوں سے لے رہی ہے، دوسرا قرض وہ ہوتا ہے جس کی گارنٹی حکومت لیتی ہے، کئی سرکاری محکمے قرض لیتے ہیں جس پر حکومت گارنٹی لیتی ہے۔

رکن کمیٹی جاوید حنیف نے کہا کہ بہت سی این جی اوز کو بیرون ممالک سے فنڈنگ آرہی ہے، سب جانتے ہیں سعودیہ اور ایران سے فنڈنگ کیوں آرہی ہے، پہلے این جی اوز کیلئے فارن فنڈنگ لانا بہت مشکل ہوتا تھا، ہم نے این جی اوز کے لیے آن لائن سہولت پیدا کر دی ہے، ہم نے این جی اوز کیلئے فنڈنگ لانے کا عمل آسان کیا ہے کیوں کہ ہمارا مقصد ہے کہ موجودہ حالات میں ڈالرز ملک میں آتے رہیں۔

سیکریٹری اکنامک افیئرز نے کہا کہ سرکار کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ لوگوں کو روزگار دے سکے، سرکار کے پاس لوگوں کے مالی حالات بدلنے کیلئے بھی وسائل نہیں۔

رکن کمیٹی بلال اظہر کیانی نے کہا کہ این جی اوز کے پردے میں کہیں دہشت گردوں کو فنڈنگ تو نہیں آتی؟ اس پر سیکریٹری نے کہا کہ ہم این جی اوز کی مکمل چھان بین کرتے ہیں،آزاد کشمیر میں کام کرنے کیلئے این جی اوز کو خصوصی اجازت چاہئیے ہوتی ہے، ایک این جی او ایسی تھی جس کا کوئی دفتر ہی نہیں مل رہا تھا، ریڈریسل کمیٹی میں تمام این جی اوز کو دیکھتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں