’’اسرائیل امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘؛ ترک صدر طیب اردوان

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے استنبول میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم امہ کے مسائل، اسرائیلی جارحیت اور خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے واضح مؤقف اختیار کیا۔

ترک صدر اردوان نے اپنے خطاب میں امید ظاہر کی کہ اس اجلاس کے نتیجے میں ایسے فیصلے لیے جائیں گے جو مسلم دنیا کےلیے بہتری کا باعث بنیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’غزہ کے عوام کا دکھ ہمارا اپنا دکھ ہے، اور ہم کسی صورت خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔‘‘

ترکیہ کے صدر نے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو سال سے اسرائیل عالمی طاقتوں کی پشت پناہی میں جارحیت کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاکھوں فلسطینی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں، اور غزہ میں اس وقت بھوک اور افلاس کا راج ہے۔

صدر اردوان نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی موجودگی میں خطے میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ’’اسرائیلی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور جو کوئی بھی سفارتی حل چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اسرائیلی رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کو سفارت کاری کی کھلی توہین قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات جاری تھے، جو اسرائیل کے اصل عزائم کو بے نقاب کرتا ہے۔

صدر اردوان نے اپنی بات کو تاریخی مثال سے جوڑتے ہوئے کہا، ’’جس طرح ہٹلر کی لگائی گئی آگ نے دنیا میں تباہی مچائی، آج اسرائیل اسی روش پر گامزن ہے، اور دنیا میں شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔‘‘

انہوں نے ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اس مشکل وقت میں ایران کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ صدر اردوان نے نہ صرف ایران بلکہ غزہ، لبنان اور یمن کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی بھی کھل کر مخالفت کی۔

انہوں نے کہا، ’’ایک غلطی کو چھپانے کےلیے مزید غلطیاں کرنے کی اسرائیلی پالیسی کی مذمت کرتے ہیں، اور ہمارا خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘

صدر اردوان نے عالمی برادری سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ان اقدامات پر خاموشی اختیار نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ 14 جون کے بعد کی جارحیت پر مسلسل آواز بلند کرتا رہے گا۔

غزہ کے مسئلے پر انہوں نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کے مطابق اس کا مستقل اور منصفانہ حل تلاش کیا جانا چاہیے۔

صدر اردوان نے مسلم امہ پر زور دیا کہ وہ موجودہ حالات میں ہر قسم کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر متحد ہو جائے۔ ’’ایک مذہب، ایک عقیدہ، اور ایک مقصد ہمیں تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیے متحد کرسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف ترکیہ کے دو ٹوک مؤقف کو دہرایا اور اپنی صدارت کے دوران اسلاموفوبیا کی ہر شکل کی مخالفت جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

خطاب کے اختتام پر صدر اردوان نے شام میں امن کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترکیہ چاہتا ہے کہ شامی عوام اپنے قدموں پر خود کھڑے ہوں، اور اس مرحلے پر ہم ان کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں