واشنگٹن: سابق وزیراعظم عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں بانی پی ٹی آئی نے اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکی سفیر پر عائد کیا تھا۔ اس سزا پر امریکا کا آفیشل ردعمل سامنے آگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان میتھیو ملر سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان میں 8 فروری کو الیکشن ہونے ہیں اور اس سے قبل عمران خان کو قید کی سزا سے کیا یہ الیکشن شفاف اور منصفانہ ہوں گے۔
جس پر ترجمان امریکی وزارت خارجہ میتھیو ملر نے جواب دیا کہ ہم سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف کیسز اور سزا سے آگاہ ہیں اور اس کا جائزہ بھی لے رہے ہیں لیکن عدالتی سزا پر کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
میتھیو ملر نے مزید کہا کہ سابق وزیراعظم پر مقدمہ اور سزا قانونی عمل ہے جس پر پاکستانی عدالت سے ہی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان میں قانونی عمل میں مداخلت یا کسی ایک امیدوار کی حمایت نہیں کرتے۔
تاہم ترجمان امریکی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں شفاف، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن دیکھنا چاہتے ہیں جس میں سب کو الیکشن میں حصہ لینے کے وسیع مواقع ملیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں تحریک انصاف کے اسیر بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ اسی کیس میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی 10 سال قید کی سزا ہوئی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ برس عمران خان نے ایک جلسے میں پرچہ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں امریکی سفیر کے مراسلے (سائفر) میں میری حکومت گرانے کی سازش پکڑی گئی ہے۔
عمران خان نے اس کے بعد اپوزیشن اتحاد، اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پھر حکومت جانے میں امریکا کے ملوث ہونے کا بیانیہ بنایا تھا اور متعدد پریس کانفرنسز میں اس سائفر کا حوالہ دیا تھا۔
اس سائفر کو سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے عمران خان کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی تھی۔
بعد ازاں یہ معاملہ عدالت میں گیا جہاں انھیں اہم اور حساس دستاویز کو غلط طور پر پیش کرنے اور پبلک کرنے پر 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
خیال رہے کہ آج بھی توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔