کراچی: شادی والے روز پولیس نے دلہا کو گرفتار کر لیا، جس کے خلاف جمشید کوارٹر تھانے کے باہر انوکھا احتجاج ہوا۔
رشتے دار دلہے کی شیروانی لے کر تھانے پہنچ گئے اور خوب نعرے بازی کی ، دلہا کی بھابھی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کے دیور نے اسے کمرے میں اکیلا دیکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔
دوسری جانب دلہا کے رشتے داروں اور علاقہ مکینوں نے کہا ہے کہ دلہا کو اس کے بھائیوں اور بھابھی نے وراثت کے مکان پر قبضہ کرنے کے لیے پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے پھنسایا ہے ۔
جمشید کوارٹر پولیس نے ایس ایچ او جمشید کوارٹر کی ہدایت پر 28 اپریل کو دن تقریباً دو بجے نور فاطمہ زوجہ یوسف قریشی کی مدعیت میں ایک مقدمہ الزام نمبر 239/24 بجرم دفعہ 354 ت پ ، 504 ت پ ، 506 ، ت پ اور 337A(i) ت پ کے تحت درج کیا ، مقدمہ میں مدعی نور فاطمہ نے بتایا کہ وہ مکان نمبر 358 مارٹن کوارٹر عثمانیہ کالونی میں اپنی فیملی کے ہمراہ رہتی ہے اور مدرسہ پڑھاتی ہے۔
مدعیہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کا چھوٹا دیور اسامہ قریشی ولد حاجی یونس قریشی جو کہ اکثر اس سے لڑتا رہتا ہے اور گالیاں دیتا ہے ، 26 اپریل 2024 کو میں اپنے گھر میں موجود تھی کہ میرا دیور اسامہ قریشی میرے کمرے میں آیا اور گالم گلوچ شروع کرنے لگا اسے منع کیا تو وہ طیش میں آگیا اور لاتوں ، گھونسوں اور مکوں سے میرے ساتھ مارپیٹ کی اور میری کمر پر لاتیں ماریں اور میرا ہاتھ موڑ دیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے لگا تو اسی دوران میرا سب سے چھوٹا دیور فیضان قریشی میرے کمرے میں آگیا اور مجھے اس سے بچایا یہ سب بات میں نے اپنے شوہر یوسف قریشی کو بتائی اور اب میں رپورٹ درج کرانے تھانے آئی ہوں۔
جمشید کوارٹر تھانے کے ڈیوٹی افسر اے ایس آئی سجاد علی نے مدعی خاتون نور فاطمہ کا بیان قلمبند کرنے کے بعد ایف آئی آر لکھی۔ بعدازاں انویسٹی گیشن پولیس نے مقدمے میں نامزد ملزم اسامہ قریشی کی گرفتاری ظاہر کر دی۔
دلہا اسامہ کے رشتے داروں نے جمشید کوارٹر تھانے کے باہر احتجاج کیا اور دلہا کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
دلہا کے رشتے داروں اور سالے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ کا بھائی اور بھابھی لیاقت آباد میں رہائش پذیر ہیں جبکہ اسامہ سینٹرل جیل کے سامنے مکان نمبر 385 عثمانیہ کالونی میں رہائش پذیر ہے جس نے 26 اپریل 2024 کو جمشید کوارٹر تھانے میں ایک درخواست دی تھی جس میں تحریر کیا تھا کہ میرے والدین فوت ہوچکے ہیں اور میں اکیلا ہوں میری شادی ہونے جا رہی ہے اور میرے بھائی اور چچا وغیرہ نے تقریباً 5 سال پہلے مجھے مارا پیٹا تھا جس پر علاقہ مکینوں نے میری جان بچائی تھی جس کا ریکارڈ تھانے میں موجود ہے اب دوبارہ میرے بھائی اور دو خواتین کو میرے گھر میں لاکر بٹھا دیا اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا میں نے پوری رات گھر سے باہر گزاری اس بات کا پورا محلہ گواہ ہے۔
اسامہ نے پولیس سے مدد طلب کی تھی کہ میرے گھر پر جو قبضہ کر لیا گیا ہے وہ قبضہ ختم کرایا جائے اور ان لوگوں سے میری جان بچائی جائے ، اسامہ کی جانب سے پہلے درخواست دیے جانے کے باوجود پولیس نے اس کی درخواست ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے نور فاطمہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا۔
علاقہ مکینوں کا دعویٰ تھا کہ ایس ایچ او جمشید کوارٹر نے مبینہ طور پر رشوت لے کر مقدمہ درج کیا ہے اور عین شادی والی صبح تقریباً 6 بجے اسامہ کو حراست میں لیا گیا اور دوپہر دو بجے مقدمہ درج کرنے کے بعد اس کی گرفتاری ظاہر کی گئی جس سے پولیس کی بدنیتی کا شبہ ہوتا ہے۔
دلہا کے رشتے داروں اور علاقہ مکینوں نے تھانے کے باہر احتجاج کے دوران اعلیٰ حکام سے واقعے کی غیرجانبدارانہ تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایس ایچ او جمشید کوارٹر نے مظاہرین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے تم لوگوں کی وجہ سے اتنی رات کو گھر سے اپنی نیند خراب کر کے آنا پڑا ہے اگر فوری طور پر احتجاج ختم نہیں کیا تو دلہا کہ طرح تم سب کو بھی گرفتار کر لونگا جس کے بعد مظاہرین پولیس کے رویے سے دلبرداشتہ پر امن طور پر منتشر ہوگئے ۔