کراچی:وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ اسکینڈل کے تین مقدمات میں بری کردیا۔
کراچی میں وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ نے سابق وزیراعظم کی جانب سے دائر بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے فیصلہ سنادیا۔
ٹڈاپ کرپشن کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور جج وفاقی انسداد کرپشن عدالت کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔
دوران سماعت عدالت نے یوسف رضا گیلانی سے استفسار کیا آپ کراچی، اسلام آباد یا ملتان میں سے کس جیل میں جانا چاہیں گے؟
جس پر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مجھے جیل سے کوئی ڈر نہیں، ہمارے لیے جیل نئی بات نہیں ہے، چاہیں تو مجھے پھانسی دے دیں۔
چیئرمین سینیٹ کے جواب پر اینٹی کرپشن عدالت کے جج مسکرا دیے۔ عدالت نے سوال کیا آپ کو گھر کی جیل کیوں پسند نہیں؟ جس پر یوسف رضا گیلانی نے کہا میرا آبائی گھر ملتان ہے، فیملی لاہور اور سینیٹ آفس اسلام آباد ہے۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ گیلانی صاحب آپ کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ آپ بس با عزت بری ہیں۔ آپ کیخلاف گواہی دینے والے اب خود ملزم بن گئے ہیں۔ عدالت نے سید یوسف رضا گیلانی سمیت 40 ملزمان کو بری کردیا۔
استغاثہ کے مطابق ملزمان پر فریٹ سبسڈی کی مد میں قومی خزانے کو 6 ارب سے زائد نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں اور وہ آج بھی سرخرو ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹے کیسز بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور پروڈکشن آرڈر پر عمل نہ ہونے سے پارلیمنٹ کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف کسی گواہ نے کوئی بیان نہیں دیا، اور جو وعدہ معاف گواہ تھا، وہ خود ملزم بن کر ملک سے فرار ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 سے چلنے والے اس کیس کا فیصلہ آج 12 سال بعد آیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انصاف بالآخر مل گیا۔
یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ سینیٹ کے ایک معزز رکن کو گرفتار کیا گیا ہے، انہیں بھی سینیٹ اجلاس میں لانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ ان کا آئینی حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی سالوں سے خدمات انجام دے رہا ہوں اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔
یاد رہے کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف ٹڈاپ اسکینڈل میں بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے تھے، تاہم عدالت نے شواہد کی عدم موجودگی کے باعث انہیں بری کرنے کا فیصلہ کیا۔