غزہ میں رمضان المبارک کے دوران اسرائیلی فورسز نے جنگ بندی ختم کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر خوفناک بمباری کی، جس کے نتیجے میں 330 سے زائد شہری شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی طیاروں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا، جب لوگ گھروں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں میں سو رہے تھے۔ غزہ کے مختلف علاقوں جبالیہ، غزہ سٹی، نصیرات، دیر البلح اور خان یونس میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، جبکہ خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد شہید ہوگئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی تازہ بمباری کے بعد غزہ میں شہادتوں کی مجموعی تعداد 48 ہزار 572 تک جا پہنچی، جبکہ سرکاری میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 61 ہزار 700 سے تجاوز کر چکی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
حماس نے اسرائیل کے اس حملے کو ’غدارانہ حملہ‘ قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر احتجاج کی اپیل کی اور عرب و اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کریں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ یہ جنگ بندی کا خاتمہ ہے اور حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک تمام یرغمالی آزاد نہیں ہوجاتے۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے بھی کہا کہ اگر جنگ روکنی ہے تو تمام یرغمالیوں کی واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے بھی “غزہ پر جہنم کے دروازے کھولنے” کی دھمکی دی اور کہا کہ حماس پر پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک حملے کیے جائیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، اس حملے سے قبل اسرائیل نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشاورت کی تھی، جبکہ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے سبھی گروہوں کو اس کی قیمت چکانی ہوگی۔
رائٹرز کے مطابق، اسرائیلی فوج زمینی حملے کی بھی تیاری کر رہی ہے، جس سے غزہ میں مزید تباہی کا خدشہ ہے۔