نور مقدم قتل معاشرے میں پھیلتی ’برائی‘ کا نتیجہ ہے جسے ’لیو ان ریلیشن‘ کہا جاتا ہے، جسٹس باقر نجفی

نور مقدم قتل کے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کیخلاف اپیل مسترد ہونے کے کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے 7 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کر دیا۔

اضافی نوٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے کہا اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کچھ اضافی وجوہات تحریر کی ہیں، ظاہر جعفر کیخلاف تمام شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’لیو ان ریلیشن‘ کا تصور معاشرے کیلئے انتہائی خطرناک ہے، لڑکے لڑکی کا لیونگ ریلیشن نہ صرف معاشرتی بگاڑ بلکہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، آج کل کی نوجوان نسل کو اس واقعہ سے سبق سیکھنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کیخلاف قتل کی دفعات میں سزائے موت برقرار رکھی تھی.عدالت نے ریپ کیس میں سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی تھی۔

اغوا کے مقدمے میں 10 سال قید کو کم کرکے ایک سال کر دیا گیا.عدالت نے نور مقدم کے اہلخانہ کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم بھی برقرار رکھا تھا۔

ظاہر جعفر کے مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو رہا کرنے کا حکم دیا گیا تھا.ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس میں کہا کہ نور مقدم کیس معاشرے میں پھیلنے والی اُس ’برائی‘ کا براہِ راست نتیجہ ہے جسے ’لیونگ ریلیشن شپ‘ کہا جاتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس نجفی کا اشارہ ’لِو اِن ریلیشن شپ‘ کی طرف تھا، یعنی ایسی صورتحال جہاں دو غیر شادی شدہ افراد رومانوی تعلق کے تحت ایک ساتھ رہائش اختیار کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کے تعلقات نہ صرف ملک بلکہ شریعت کے تحت پرسنل لا کے بھی خلاف ہیں”، جج نے ان تعلقات کو خدا کے خلاف “براہ راست بغاوت” قرار دیا۔

معزز جج نے اس طرح کے تعلقات کے “خوفناک نتائج” کے بارے میں نوجوان نسل کو خبردار کیا۔

27 سالہ نور مقدم جولائی 2021 میں ظاہر ذاکر جعفر کے اسلام آباد میں واقع گھر سے مردہ حالت میں ملی تھیں، رواں سال مئی میں جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں جسٹس اسحٰق ابراہیم اور جسٹس باقر علی نجفی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ظاہر جعفر کو 2022 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں