اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں حکمران جماعت کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے آئینی ترامیم کے حوالے سے کہا ہے کہ ہمیں صرف مولانا فضل الرحمان کے ووٹوں کی نہیں، خود مولانا کی بھی ضرورت ہے اور وہ جلد کسی فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے بارے میں نظرثانی اپیل پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے نے ایک بہت بڑی غلطی کی اصلاح کردی ہے، اس سے حکومت یا کسی پارٹی کو نہیں بلکہ آئین کو ریلیف دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو سال قبل جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے پنجاب میں ایک مخصوص جماعت کی حکومت ختم کرنے اور ایک خاص جماعت کی حکومت بنانے کے لیے خود آئین تحریر کرتے ہوئے ایک اضافی جملہ ڈال دیا تھا، ایسا کرنے کا واحد مقصد حمزہ شہباز کی جگہ چوہدری پرویز الہٰی کو وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھانا تھا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ آمریت کی سب سے خوف ناک شکل عدالتی آمریت ہے، انتظامیہ کی آمریت حدوں سے نہیں نکل سکتی، فوجی آمریت کو بھی کچھ حدود کا علم ہوتا ہے لیکن عدالتی آمریت خود عدل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی اور تمام حدیں پھلانگ جاتی ہے۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمیں صرف مولانا فضل الرحمان کے ووٹوں کی نہیں، خود مولانا کی بھی ضرورت ہے، سب کچھ دن کے اجالے میں ہو رہا ہے، میڈیا میں بحث ہو رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان جلد کسی فیصلے پر پہنچ جائیں گے اور ہفتہ 10 دن میں پارلیمان کا اجلاس بلایاجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے وقت ملک میں ہنگامہ آرائی کرنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کردار سے مطابقت رکھتا ہے، 2014 میں بھی یہی کچھ کیا تھا اور آج بھی اسی کی تیاریاں کر رہی ہے، پی ٹی آئی کی 9 مئی کی سوچ نہیں بدلی۔
عرفان صدیقی نے پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی) کے چئیرمین بلاول بھٹو کی اس بات سے اتفاق کیا کہ 25 اکتوبر کے بعد ترمیم کی راہ میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
حکومتی سینیٹر نے کہا کہ 3 مئی کو جوڈیشل کمشن کے اجلاس میں وزیر قانون نے نیک نیتی کے ساتھ آگاہ کیا کہ حکومت ایک آئینی پیکج لانا چاہتی ہے، اگر ہم رات کے اندھیرے میں لانا چاہتے تو چپ رہتے، اس سے خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں اور کچھ ججوں کو خوف پیدا ہوگیا ہے کہ شاید ان کے نیچے سے سیڑھی کھینچی جارہی ہے لہٰذا تین دن بعد 6 مئی کو انہوں نے آئین اور قانون سے متصادم فیصلہ کرکے حکمران اتحاد کو دوتہائی اکثریت سے محروم کرنے کی کوشش کی تاکہ کوئی آئینی ترمیم نہ ہوسکے.