قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی انسداد دہشتگردی قانون میں ترمیم کا بل منظور

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی انسداد دہشتگردی قانون میں ترمیم کا بل منظور کر لیا۔

ایوان بالا سے بل کی منظوری کے موقع پر اپوزیشن نے بل کمیٹی کو بھیجے بغیر منظور کرانے پر شدید احتجاج اور واک آؤٹ کیا۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس ترمیم سے ایس ایچ او کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بلا وجہ کسی کو بھی 3 ماہ تک قید کر لیں گے ، گرفتار شخص کو 3 ماہ تک عدالت تک رسائی بھی روک دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے قوانین 200 سال پہلے انگریز دور میں متعارف کرائے گئے تھے، ایسے متنازع قانون کو بحث اور کمیٹی میں بھیجے بغیر منظور نہیں کرایا جاسکتا۔

وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے انسداد دہشتگردی قانون میں ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترامیم 73 کے آئین کی روح کے مطابق ہیں، ملک میں دہشتگردی کی آگ لگی ہوئی ہے، اپنے بیٹوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر لڑنے نہیں بھیج سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی پارلیمان نے قانون سازی کرکے دہشتگردی کے خلاف اپنے اداروں کو طاقتور بنانا ہے، یہ قانون پہلی بار سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد آیا تھا، یہ قانون کامیابی سے عدالتی اسکروٹنی سے گزر چکا ہے۔

واضح رہے ایک ہفتے قبل قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظورکیا تھا۔

انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل

بل کے متن کے مطابق ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص کو حراست میں نہیں لیا جا سکےگا، اس میں زیر حراست شخص کی 3 ماہ سے زائد مدت کی حراست کے لیے معقول جواز لازمی قرار دیا گیا ہے۔

بل کے تحت سیکشن 11 فور ای کی ذیلی شق ایک میں ترمیم کر دی گئی۔ ترمیمی بل کے مطابق مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک حفاظتی حراست میں رکھنےکی مجاز ہوں گی۔ ملکی سلامتی، دفاع، امن و امان کے لیےکسی بھی شخص کو حراست میں رکھا جاسکےگا۔ اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کسی بھی شخص کو حراست میں رکھا جاسکےگا۔

ترمیمی بل کے مطابق ان جرائم میں ملوث شخص کی حراست کی مدت آرٹیکل 10 کے تحت 3 ماہ سے بڑھائی جا سکے گی، زیر حراست شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی، انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل 3سال کےلیے نافذ العمل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں