اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترامیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیئے، چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پاکستان کی تباہی کرنے والے کو دوبارہ سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیے مگر اس کی نااہلی بھی پانچ سال ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جمعیت علمائے اسلام ف کے ایم پی اے میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق یہ نوٹس لیا۔ تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے معاملے کو سپریم کورٹ نے لارجز بنچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو معاملہ ارسال کردیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کیس کی سماعت جنوری میں ہوگی لیکن موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائےگا، موجودہ کیس کا نوٹس دو انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ کمیٹی طے کرے گی لارجر بنچ پانچ رکنی ہوگا یا سات رکنی، کوئی سیاسی جماعت اس کیس میں فریق بننا چاہے تو بن سکتی ہے۔ عدالت نے اس حکم نامے کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھی دینے کی ہدایت کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے کوئی غیر یقینی صورتحال نہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کی توہین ہوگی، موجودہ کیس 2018ء کے انتخابات سے متعلق ہے لیکن اس کیس کی سماعت سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پوچھا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟ اس پر قیصرانی کے خلاف درخواست دینے والے وکیل نے کہا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007ء میں نااہل کیا گیا، ہائیکورٹ نے 2018ء کے انتخابات میں میر بادشاہ کو لڑنے کی اجازت دے دی، میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے؟
وکیل نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پانامہ کیس میں فیصلہ دے دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر دو آراء ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ وکیل نے کہا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی پانچ سال کی ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی پانچ سال نااہلی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال کر دی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کر سکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر موثر ہو چکا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے، ملک میں انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا اطلاق موجودہ انتخابات پر ہوگا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 کی شمولیت کے بعد تاحیات نااہلی سے متعلق تمام فیصلے غیر موثر ہو گئے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قیصرانی 2007ء کے انتخابات میں گریجویشن کی جعلی ڈگری پر نااہل ہوئے، 2018ء کے عام انتخابات میں میر بادشاہ قیصرانی نے میٹرک کی بنیاد پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، ہائیکورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت میر بادشاہ قیصرانی تاحیات نااہل ہیں اور انتخابات نہیں لڑ سکتے تھے، سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا نااہلی کے باوجود آئندہ انتخابات لڑیں گے، میر بادشاہ قیصرانی کی سزا کے خلاف اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، سپریم کورٹ ہائیکورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم نہیں دے سکتی، ہم ہائیکورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے، ہم ہائیکورٹ میں زیر التوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے، آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی پانچ سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پر نااہلی تین سال ہے، لوگ شادی کے وقت جن شرائط پر رشتہ دیتے ہیں وہ پوری نہ ہوں تو شادی ختم تو نہیں ہوتی، یہ مثال صرف سمجھانے کی غرض سے دی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ امین تو صرف ہم ایک ہی شخصیت کو کہتے ہیں باقی کوئی اس درجہ پر نہیں پہنچ سکتا، ہر شخص ہر وقت سچ تو نہیں بولتا، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے، پاکستان کی تباہی کرنے والے کو دوبارہ سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیے مگر اسکی نااہلی بھی پانچ سال ہے، آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں، جو آئین میں واضح نہیں اس کی سپریم کورٹ تشریح کر سکتی ہے وضاحت نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے، ایک طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے دوسری جانب قانون،ریٹرننگ افسر کس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آگئے ہیں مگر کسی کو پتا نہیں کہ وہ الیکشن لڑے گا یا نہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترامیم میں تضاد پر نوٹس لے لیا اور وفاقی اٹارنی جنرل سمیت تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو طلبی کے نوٹس جاری کردیئے۔