اسلام آباد: سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس جاری کردیا۔
سپریم کورٹ میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟۔ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا۔ سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں؟۔ کیا وہ جنرلز جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟۔ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔ کیا کسی اور کو فائدہ پہنچانا مقصد تھا؟۔ آپ کا کہنا ہے کہ عدالتوں پر دباؤ ڈال کر کسی کو نااہل رکھ کر کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا مقصد تھا۔ آپ کے الزامات سے لگ رہا ہے اصل مقصد کسی اور کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے الزامات بہت سنگین نوعیت کے ہیں۔ کیا ایک شخص کو جیل میں رکھ کر اپنے پسندیدہ شخص کو جتوانا مقصد تھا؟۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ فائدہ کس کو ملا۔ اصل فائدہ اٹھانے والا تو کوئی اور ہے۔ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں، اصل بینیفشری تو کوئی اور ہے۔ آپ نے درخواست میں اصل بینیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے لوگوں پر پیٹھ پیچھےالزامات لگائے ۔ جن پر الزامات لگائے گئے، وہ کسی اور کے لیے سہولت کاری کر رہے تھے۔ سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں۔ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ ، جس پر وکیل نے کہا کہ فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے۔ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ 70 سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا 70 سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟فوج کو چلاتا کون ہے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے۔ جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں۔ جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔ یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔
وکیل بار کونسل صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا، ہم ان کو فریق بنا رہے ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جن پانچ اشخاص کا نام آ رہا ہے انہیں فریق بنایا جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل جیل میں قید رکھنے کے لیے عدلیہ کا کندھا کیوں استعمال ہوا؟۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میں اس وقت یہ نہیں کہہ سکتا نواز شریف، مریم نواز کو جیل میں رکھنے کا اصل مقصد عمران خان کو فائدہ پہنچانا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلاوجہ لوگوں کو نوٹس دے کر تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو بطور کندھا استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ مناسب جواب نہ ملا تو یہ سمجھیں گے آپ ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ تو پھر شوکت صدیقی کا کیس صرف پنشن اور مراعات کی حد تک رہ گیا ہے۔ ہم 10 سال پرانے کیسز سماعت کے لیے مقرر کر رہے ہیں۔ عدالتی بنچز کی تشکیل انتہائی شفافیت سے ہو رہی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ سب کچھ نواز شریف کی دشمنی میں کیا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ شوکت صدیقی نے تقریر میں کہا مجھے کہا گیا نواز شریف، مریم نواز جیل سے باہر آئے تو 2 سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ 2 سال کی محنت کس کے لیے کی گئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں؟۔ کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟۔ کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟ ۔ بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباؤ ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ ۔ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟ ۔
وکیل بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ ہمیں نہ بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔ آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نہ آئے؟۔
وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟۔ وکیل نے کہا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم طریقے سے چلیں گے۔ شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دیدے گی۔ شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے ہیں، واپس بحال تو نہیں ہو سکتے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں، آپ کو دے دیں گے۔ اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یہاں لوگ آلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آلے کے طور پر استعمال کون کرتا ہے؟ ۔ ماضی میں جو ہوتا رہا وہ سب ٹھیک کرنا ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لینے سے روکا جب کہ اس ملک کی حقیقت یہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے منہ میں الفاظ نہ ڈالیں۔ یہ آئینی عدالت ہے، یہاں آئینی زبان استعمال کریں۔ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ کہاں سیاسی دائرہ اختیار ختم اور عدالتی دائرہ شروع ہوتا ہے۔ آپ کا کیس کب سے مقرر نہیں ہوا، یہ الزام ہمارے سامنے کھڑے ہو کر لگائیں ہم معذرت کریں گے۔ الیکشن کی تاریخ سے متعلق سیاسی جماعت آئی تو 12 روز میں ہم نے فیصلہ کیا۔ ملک میں کب اتنی جلدی کیس کا فیصلہ ہوا ہے؟ ۔ ہم نے آئینی اداروں کو حکم دیا کہ انتخابات کرانے کی ذمے داری پوری کریں۔ مسئلہ یہ ہے کوئی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے زیادہ نام فیض حمید کا لیا ہے۔ قمر باجوہ سے متعلق گفتگو تو سنی سنائی ہے۔ قمر باجوہ نے شوکت عزیز صدیقی سے براہ راست کوئی بات نہیں کی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وہ بینچ بنایا تھا جو فیض حمید چاہتے تھے؟ وکیل حامد خان نے بتایا کہ جو فیض حمید چاہتے تھے وہ ہوا۔ فیض حمید چاہتے تھے الیکشن 2018 سے پہلے نوازشریف کی ضمانت نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ خود معاملہ الیکشن 2018 تک لے آئے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ نوازشریف کی اپیل پر کیا فیصلہ ہوا؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ اپیلوں پر ابھی فیصلہ ہوا اور نوازشریف بری ہوگئے ہیں۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے الزامات کی تفصیل عدالت میں پڑھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ صرف ایک انفرادی شخص فیض حمید تھا جو سب کچھ کر رہا تھا۔ باقی تو آپ کی باتیں سنی سنائی ہیں۔ آپ کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہے کہ آپ کو کہا گیا انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم کو جیل سے باہر نہیں آنا چاہیے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں نواز شریف اور مریم نواز کے کیس میں ضمانتیں ہوگئی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں اس پر بات نہیں کرنی چاہیے ہوسکتا یہ کیسز کل ہمارے پاس آئیں۔ آپ نے الزامات میں کہا فیض آباد دھرنا اسپانسرڈ تھا۔ وکیل نے کہا کہ جولوگ شوکت عزیز صدیقی پر دباؤ ڈال رہے تھے اس تاثر کی بنیاد پر کہا گیا کہ دھرنا اسپانسرڈ تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دباؤ ڈالنے والے کس طرح کے فیصلے چاہتے تھے کیوں دباؤ ڈال رہے تھے۔ ہم محض اشاروں پر نہیں چل سکتے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے نام عدالت کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ اب یہ عدالت نہ طے کرنا ہے کہ کس کو نوٹس کرنا ہے کس کو نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل باجوہ سے تو کڑی نہیں جڑ رہی۔ آپ کہتے ہیں کہ فیض حمید جنرل باجوہ کے کہنے پر آئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پر تو براہ راست الزام ہی نہیں۔ آج کل تو لوگ کسی کا نام استعمال کر لیتے ہیں۔ رامے بھی اس کیس سے غیر متعلقہ ہیں۔
بعد ازاں چیف جسٹس آف پاکستان نے شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس میں آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا۔ عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو نوٹس جاری کر دیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور کاسی،بریگیڈیئر عرفان رامے، سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے درخواستگزار شوکت صدیقی کو 7روز میں ترمیمی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔
عدالت نے کہا کہ 3 افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریقین بنایا تھا، ان کا براہ راست تعلق نہیں۔ قمر جاوید باجوہ، طاہر وفائی، فیصل مروت کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
کیس کی آئندہ سماعت تعطیلات کے بعد ہوگی۔ عدالتی حکم نامے کے مطابق ترمیمی درخواستیں ایک ہفتے میں دائر کی جائیں۔ ترمیمی درخواستیں آنے کے بعد سپریم کورٹ آفس نوٹس جاری کرے گا۔ کیس کی آئندہ حتمی تاریخ ججز کی دستیابی کے بعد طے کریں گے ۔