اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد تاثر دیا گیا سیاسی جماعت ختم اور جنازہ نکل گیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو اضافی نشستوں کی حد تک معطل کر دیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازعہ نشستیں ہیں، قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازعہ ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو خیبر پختونخواہ کو ’کے پی کے‘ بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے لوگ اس نام سے بلائے جانے پر برامناتے ہیں، یا دیگر صوبوں کیلئے بھی مخفف استعمال کریں یا ان کا بھی پورا نام لیں۔
فیصل صدیقی نے بتایا کہ ہمارے جیتنے والے امیدواروں نے پارٹی کا سرٹیفکیٹ لگایا تھا اس کے باوجود الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ آزاد امیدوار ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کو یہ اختیار ہے وہ کسی کو خود آزاد ڈیکلئیر کر دے؟ جب پارٹی بھی کہہ رہی ہو یہ ہمارا امیدوار ہے امیدوار بھی پارٹی کو اپنا کہے الیکشن کمیشن کا اس کے بعد کیا اختیار ہے؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا بینفشری جماعتوں میں سے کوئی عدالت میں سنی اتحاد کونسل کی حمایت کرتی ہے؟
تمام جماعتوں نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب ہوا آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی کہا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے کے بعد آرٹیکل 17 کے تحت قائم سیاسی جماعت ختم ہوگئی تھی؟ کیا انتخابی نشان واپس ہونے پر سیاسی جماعت امیدوار کھڑے نہیں کرسکتی؟ تاثر تو ایسا دیا گیا جیسے سیاسی جماعت ختم ہوگئی اور جنازہ نکل گیا، کیا یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی بطور جماعت برقرار تھی اور مخصوص نشستوں کی فہرستیں بھی جمع کرائی تھیں؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو ججز کے سوالات کے جواب دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں۔
فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزا اور تکلیف یہی ہے.