اسلام آباد: مقامی ماہرین نے آئی ایم ایف کا متبادل معاشی منصوبہ پیش کردیا۔
آئی ایم ایف حکومت پر اگلے مالی سال میں مزید 2 ہزار ارب روپے کے ٹیکس عائد کرنے کیلیے زور ڈال رہا ہے، اس مقصد کیلیے آئی ایم ایف نے حکومت پر ٹیکس ریٹس میں اضافہ کرنے پر زور دیا ہے، ایسے میں مقامی ماہرین نے آئی ایم ایف کے متبادل ٹیکس تجاویز پیش کی ہیں، جن میں ٹیکس ریٹس میں اضافے کے بجائے انکم ٹیکس میں کمی اور کچھ استشنائوں کو ختم کرنے کی سفارش کی ہے، اور اس طرح ٹیکس آمدن میں 1.2 ہزار ارب روپے کے اضافے کی گارنٹی دی ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس( PIDE) اور پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی( PRIME) کے ایک کنسورشیئم نے آئی ایم ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کیلیے ٹیکس اسٹرکچر میں اصلاحات کیلیے اپنی تجاویز پیش کی ہیں، اس کنسورشیئم میں سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد کاردار، سابق آئی ایم ایف آفیشل ڈاکٹر نعیم الحق، نمایاں ٹیکس ایکسپرٹ ڈاکٹر اکرام الحق اور شبر زیدی، اور سابق WTO آفیشل منظور احمد جیسے مقامی ماہرین شامل ہیں۔
کنسورشیئم کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے ٹیکس اصلاحات کا ایک مکمل پیکیج تیار کیا ہے، جس میں اقتصادی نمو کا گلا گھونٹے بغیر زیادہ ریونیو جمع کرنے کی ضمانت دی گئی ہے، اپنا منصوبہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ہماری تجاویز پر عمل کرکے ٹیکس آمدن میں اگلے تین سالوں میں 4.1 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا جاسکے گا، جبکہ پہلے سال میں یہ اضافہ 1.2 ہزار ارب روپے ہوگا۔
اپنا منصوبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیم الحق نے کہا کہ حکومت کو برطانیہ سے ماہرین بلوانے کے بجائے مقامی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے دوران 2 ہزار کی ٹیکس آمدن میں اضافے سمیت مجموعی طور پر 13 ہزار ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف حکومت کو دیا ہے، اس مقصد کیلیے آئی ایم ایف نے مختلف طبقات پر ٹیکسز میں اضافہ کرنے کی تجویز حکومت کو دی ہے۔
مقامی تھنک ٹینک نے انکم ٹیکس کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ آمدنی کے ذرائع سے قطع نظر تمام افراد پر یکساں انکم ٹیکس نافذ کیا جائے، انھوں نے ذرعی آمدنی کو آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکم کو کسی بھی استشناء کے بغیر ایک وفاقی موضوع بنایا جائے، آئی ایم ایف کی جانب سے انکم ٹیکس میں 45 فیصد تک اضافے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کرنے کی تجویز دی ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو 6 لاکھ سالانہ سے بڑھا کر 8 لاکھ سالانہ کیا جائے، اور اس کا وقتا فوقتا جائزہ لیا جائے، انھوں نے 2 لاکھ ماہانہ انکم پر 5 فیصد، 4 لاکھ پر 12.5 فیصد، جبکہ 8 لاکھ پر 20 فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے جو کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ انکم ٹیکس ریٹس سے بہت کم ہیں۔
مقامی ماہرین نے 2.5 ملین ماہانہ آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس کی تجویز دی ہے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذاتی آمدنی آمدنی کیلیے موثر ٹیکس کی شرح کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح سے 5 پوائنٹ زیادہ ہونی چاہیے، انھوں نے بتایا کہ اس وقت ذاتی آمدنی پر ٹیکس کی شرح کارپورٹ آمدنی کے مقابلے میں کم ہے، جس سے ایسے افراد کارپوریٹڈ سسٹم سے باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، انھوں نے کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو 29 فیصد سے کم کرکے 25 فیصد کرنے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے دیمڈ رینٹل انکم ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس، 10 فیصد سپر ٹیکس، 1.2 فیصد ٹرن اوور ٹیکس اور فرضی اور فائنل ٹیکس ریجیمز کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا، انھوں نے پلانٹس اور مشینری کیلیے انویسٹمنٹ کریڈٹ کی بحالی، متعد ودہولڈنگ ٹیکسزمیں کمی، اور سوائے طویل المدت کیلیے پے رول، سود، منافع اور نان ریزیڈنٹس کو پیمنٹس کے علاوہ تمام ود ہولڈنگ ٹیکس ریجیم کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس موقع پر پرائم کے سربراہ سلمان علی نے کہا کہ تقریبا 68 فیصد ریونیو ودہولڈنگ اور منیمم ٹیکس ریجیمز سے حاصل کیا جاتا ہے، جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، انھوں نے نان فائلر ٹیکس کیٹیگری کو ختم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جس استعمال ٹیکس نیٹ کو پھیلانے کے بجائے ٹیکس وصول کرنے کیلیے کیا جارہا ہے۔
اصلاحات کے ان سیٹوں کے باجود مقامی ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ ایف بی آر ان تجاویز پر عمل کرکے تین سالوں کے دوران اپنی آمدنی میں 1.6ہزار ارب روپے کا اضافہ کرسکتا ہے، جس میں سے پہلے سال 246 ارب روپے کا اضافہ ہوگا، ٹیکسوں میں کمی سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، جس سے 566 ارب روپے کی اضافی آمدن ہوگی، لازمی ریٹرن فائل کرنے اور سیلز ٹیکس ریفارمز سے 346 ارب روپے کا منافع ہوگا۔