اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان بند کردیں۔
سپریم کورٹ میں 8 الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل کہ ٹریبونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، 1977سے الیکشن کمیشن ہی الیکشن ٹربیونلز قائم کرتا آ رہا ہے، کیس میں آئین کے آرٹیکل 219(سی) کی تشریح کا معاملہ ہے، 14 فروری کو الیکشن کمیشن نے ٹریبونلز کی تشکیل کیلئے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے اور ججز کے ناموں کی فہرستیں مانگیں، لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 20 فروری کو 2 ججز کے نام دئیے گئے، دونوں ججز کو الیکشن ٹریبونلز کیلئے نوٹی فائی کردیا گیا، 26 اپریل کو مزید دو ججز کی بطور الیکشن ٹریبونلز تشکیل دے گئے، 4 ٹربیونلز کی تشکیل تک کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس ہائی کورٹ ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرسکتے، ایک میٹنگ میں بیٹھ کر سب طے کیا جاسکتا ہے، کیا پاکستان میں ہر چیز کو متنازعہ بنانا لازم ہے ؟ انتخابات کی تاریخ پر بھی صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں تنازعہ تھا، رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے خط کیوں لکھے جا رہے ہیں، چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر بیٹھ جاتے تو تنازعہ کا کوئی حل نکل آتا، بیٹھ کر بات کرتے تو کسی نتیجے پر پہنچ جاتے، کیا چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کا ملنا منع ہے ؟ کیا کوئی انا کا مسئلہ ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے تمام ہائیکورٹس کو خطوط لکھے تنازعہ نہیں ہوا، لاہور ہائیکورٹ کے علاوہ کہیں تنازعہ نہیں ہوا، بلوچستان ہائیکورٹ میں تو ٹربیونلز کی کارروائی مکمل ہونے کو ہے، میں جب چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تھا ہم نے واضح کہہ دیا تھا ٹربیونلز کے قیام کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
دوران سماعت ہائیکورٹ کیلئے قابل احترام کہنے پر چیف جسٹس نے روکتے ہوئے کہا کہ قابل احترام ججز کیلئے کہا جاتا ہے، کیا انگلستان میں پارلیمان کو قابل احترام کہا جاتا ہے ؟ یہاں پارلیمنٹرین ایک دوسرے کو احترام نہیں دیتے ، ایک دوسرے کو گالم گلوچ ہوتی ہے، الیکشن کمیشن کو قابل احترام کیوں نہیں کہتے، کیا الیکشن کمیشن قابل احترام نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین بالکل واضح ہے الیکشن ٹربیونلز کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے، آرٹیکل 219 سیکشن C نے بالکل واضح کر دیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر نہیں آئین وقانون کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، سپریم کورٹ نے جب جب آئینی تشریح کی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئین آرڈیننس کے اجراء کی اجازت دیتا ہے۔
صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، آرڈیننس ہی لانا ہے تو ایوان بند کردیں
دوران سماعت چیف جسٹس نے صدارتی آرڈیننس کے اجراء پر اہم ریمارکس دیے کہ صدارتی آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے، اگر آرڈیننس ہی لانا ہے تو ہاؤس بند کر دیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ سلیمان اکرم راجہ سے کہا کہ پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ نے ریٹرننگ افسر کے معاملے پر پورا انتخابی عمل ہی روک دیا تھا، کیا الیکشن کمیشن کو ہی ختم کردیں، آپ اپنا کام کریں دوسرے کو اپنا کام کر دیں، جس کا کام ہے، اسے کرنے دیاجائے، فرض کر لیں دو آئینی اداروں کی بظاہر لڑائی ہے، تو اس معاملے میں آپ کا کیا لینا دینا ہے۔