اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بچوں کے دودھ پر 18 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کردی۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر فاروق ایچ نائی نے کہا کہ پاکستان میں ہر آدمی کا بینک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ جب تک سب لوگوں کے بینک اکاؤنٹ نہیں ہوں گے، اس وقت تک معیشت کو دستاویزی شکل دینا مشکل ہے۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ اسٹیشنری آئٹمز پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، دودھ اور بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ ضرورت مندوں کو نقد امداد فراہم کی جائے گی۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ملک میں 40 فیصد سٹنٹنگ ریٹ ہے، دودھ پر سیلز ٹیکس بڑھانا زیادتی ہے۔ اس پر کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ انوشے رحمان نے کہا کہ یہ تجویز ظالمانہ ہے۔ جس پر کمیٹی نے بچوں کے دودھ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز مسترد کردی۔
سینیٹر فاروق ایچ نائی نے کہا کہ سٹیشنری آئٹمز پر ٹیکس ختم ہونا چاہیے، ہر چیز پر ٹیکس لگا رہے ہیں، گورکن پر بھی ٹیکس لگا دیں، کراچی میں قبر بھی معاوضہ دے کر ملتی ہے، شکر ہے آئی ایم ایف کو اس بات کا نہیں پتا۔ سینیٹر انوشے رحمن نے کہا کہ کیا ایف بی آر کے آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں؟، فاٹا پاٹا کے لیے ٹیکس چھوٹ کے لیے آئی ایم ایف نے کچھ نہیں کہا؟، بطور پنجابی سینیٹر میں پوچھتی ہوں کیا سارے ٹیکس پنجاب کے لیے ہیں؟۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ فاٹا پاٹا کی ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ذیشان خانزادہ نے کہا کہ آزادکشمیر کو بھی ٹیکس چھوٹ دی گئی، سرکاری نوکریاں دینے کے بجائے علاقے میں انڈسٹری دی جائے۔
سینیٹر سلیم مانڈروی والا نے کہا کہ مینوفیکچررز کہتے ہیں کہ ٹیکس چھوٹ خام مال کے لیے دی گئی، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ خام مال بھی یہاں کے مینوفیکچررز کو بیچا جارہا ہے۔
انوشے رحمٰن نے کہا کہ سرجری کے آلات پر 18 فیصد ٹیکس لگا رہے، اب تو بیمار ہونا بھی مہنگا ہوجائے گا، جس پر ایف بی آر حکام نے بتایا کہ سرجری اشیا پر پہلے ٹیکس چھوٹ تھی، اب 18 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔