اسلام آباد: پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن پر پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے نے سیاسی اور قانونی محاذ پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
انٹرنیٹ کی وسیع دنیا میں ڈیجیٹل جرائم کے خلاف ٹرائل کے لیے قائم خصوصی عدالتیں کیسے کام کریں گی، پاکستان میں ان جرائم کی تحقیقات کا اختیار کن اداروں اور افسران کے پاس ہے، اس حوالے سے تفصیلات سامنے آگئیں۔
پیکا ایکٹ کے تحت ڈیجیٹل جرائم میں ملوث کسی بھی مجرم کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور پولیس سزا دلوانے کی مجاز ہوگی۔
ڈیجیٹل جرائم کے مقدمے کے اندراج کے بعد پولیس تکنیکی رائے اور تفتیش کے لیے معاملے کو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کے پاس بھیجنے کی پابند ہوگی جبکہ انسپیکٹر رینک کے افسر معاملے کی تفتیش کرے گا۔
وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی صورت میں جے آئی ٹی 5افسران پر مشتمل ہوگی جس میں گریڈ 18 تک کے تمام ایجنسیوں کے افسران شامل ہوں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت ڈیجیٹل جرائم سے متعلق ایک یا ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے سکتی ہے۔
ڈیجیٹل جرائم سے متعلق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یا تفتیشی افسر عدالت کی طرف سے مقدمات کی سماعت کے 45روز کے اندر ملزم کے خلاف تحقیقات مکمل کرنے کا پابند ہوگا۔
ڈیجیٹل جرائم کے خلاف مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلائے جائیں گے جنہیں وفاقی حکومت متعلقہ چیف جسٹس کے مشاورت سے قائم کرے گی جبکہ وفاقی حکومت، متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے، قائم خصوصی عدالتوں کے ججز کے لیے کمپیوٹر سائنسز، سائبر فرانزک، الیکٹرانک ٹرانزیکشنز اور ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق خصوصی تربیت کا انتظام کرے گی۔
پیکا ایکٹ کے تحت قائم عدالتیں کسی مقدمے کا نوٹس لیتے ہوئے ہفتہ وار بنیادوں پر مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھائے گی اور تین ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاملے کو متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے نوٹس میں مناسب ہدایات کے لیے لایا جائے گا