کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے 12 سال سے لاپتہ شہری سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی کے لئے کارروائیاں جاری رکھنے اور شہریوں کی تصاویر عوامی مقامات پر لگانے کا حکم دیدیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو 12 سال سے لاپتہ شہری سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
پولیس نے طویل عرصے سے 3 لاپتہ شہریوں کا سراغ لگا لیا۔ پولیس نے لاپتہ شہریوں کی بازیابی سے متعلق رپورٹس عدالت میں جمع کرا دیں۔
رپورٹ میں کہا کہ آفتاب احمد بروہی مقدمے میں نامزد تھا اور اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ آفتاب علی بروہی کا سراغ لگانے پر اہلخانہ کا خوشی کا اظہار اور عدالت کا شکریہ ادا کیا۔
بوٹ بیسن سے لاپتہ حسن علی مگسی اور زردار خان پولیس کو مطلوب تھے دونوں شہری بازیاب ہو کر گھر واپس آگئے۔ لاپتا شہری نور محمد کی جانب سے اہلخانہ عدالت میں پیش ہوئے۔ اہلخانہ نے بتایا کہ نور محمد 12 سال سے لاپتہ ہے، اب تک پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ متعدد جے آئی ٹیز کے اجلاس ہوئے ہیں اور حراستی مراکز کو خطوط بھی ارسال کیے گئے ہیں۔
دوران سماعت قدیر نامی شہری نے کہا کہ میرا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں میرا شناختی کارڈ نمبر اور فون نمبر غلطی سے لکھا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے بار بار فون کالز کر کے تنگ کیا جاتا ہے، ان کی وجہ سے مجھے آفس سے بھی وارننگ ملی ہے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ کیس میں شناختی کارڈ نمبر کامران نامی شہری کا لکھنا تھا غلطی سے قدیر کا لکھا گیا۔
عدالت نے نور محمد، حبیب خان، سید نوید سمیت دیگر شہریوں کی بازیابی کے لئے کارروائی جاری رکھنے اور ٹریول ہسٹری حاصل کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے لاپتا شہریوں کی تصاویر عوامی مقامات پر لگانے کا بھی حکم دیدیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر تفتیشی افسر سے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 18 اپریل تک ملتوی کردی۔