اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ پریس کانفرنسز کے ذریعے بظاہر عدلیہ کی توہین کی گئی۔ پیمرا مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنسز میں پوچھے گئے سوالات اور ان کے جواب کی تفصیل بھی پیش کرے۔
حکم نامے کے مطابق 15 مئی کو فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کی۔ ہماری تنقید ہمارے منہ پر کریں۔ ہم انہیں بلا لیتے ہیں۔ دوسری پریس کانفرنس مصطفی کمال نے کی۔ عدالت کے زیر سماعت مقدمات پر بات کی گئی۔ پریس کانفرنس اخبارات میں اور ٹی وی پر چلائی گئی۔ آرٹیکل 19 کے تحت ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں توہین عدالت کی ممانعت ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ پریس کانفرنسز میں زیر التوا مقدمات پر بھی بات کی گئی۔ سب سے زیادہ باتیں میرے خلاف کی گئیں۔ میں نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ہماری تحمل مزاجی کو ستائش کی نظر سے دیکھنے کے بجائے زیادہ شدت نہیں آنی چاہیے۔ اداروں کی تضحیک نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم پوری صحافت کو بُرا نہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے عالمی رینکنگ میں ہمارا نمبر 137ہے۔ ہم نے عدالتی امور میں شفافیت لائی ہے۔ عدالتی بینچز کی تشکیل میں شفافیت لائے ہیں۔ جس کے پاس دلائل ہیں وہ اپنے دلائل سے ہمیں بھی خاموش کروا سکتا ہے۔ ایک کمشنر ٹہلتا ہوا آیا اور مجھ پر الزامات لگا دیے۔ ہم نے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ میں چیف جسٹس پاکستان ہونے کے ساتھ ایک ادارے کا سربراہ بھی ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا جاتا ہے مہذب معاشروں میں توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوتی۔ مہذب معاشروں میں ایسی بیان بازی بھی نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے پاس زیر التوا کیسز کم کرنے کی کوئی تجویز ہے وہ ہمیں بتا دے۔ چیخ و پکار اور ڈرانے دھمکانے سے کیا حاصل ہوگا۔ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے، گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پتا نہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کراچی والے ایک صاحب مصطفیٰ کمال آئے اور کہا بھٹو کے ساتھ یہ کر دیا گیا،وہ کردیا۔ ہم نے بھٹو کیس میں غلطی تسلیم کی۔ ہم بھٹو کو زندہ تو نہیں کر سکتے، غلطی ہی مان سکتے ہیں۔ اگر ہماری اصلاح کے لیے کسی کے پاس کوئی تجویز ہے تو رجسٹرار کو لکھ کر دے دیں۔ایسا اس لیے نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے شہرت نہیں ملے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم خود ہی اپنی دشمنی کے لیے کافی ہیں۔ ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔
عدالتی حکم نامے میں مزید لکھا گیا کہ دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان نے بھی توہین عدالت کی کارروائی سے اتفاق کیا۔