اسلام آباد: وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ طرزِ سیاست کے ساتھ پاکستان میں پی ٹی آئی کی گنجائش نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے طرز سیاست میں تضادات ہی تضادات ہیں، انہیں قوم اور اداروں سے معافی مانگنی ہوگی، بصورت دیگر موجودہ طرز سیاست کے ساتھ پاکستان میں پی ٹی آئی کی گنجائش نہیں ہے۔
فوج کے ساتھ مذاکرات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ فوج خود کو سیاست سے الگ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، لہٰذا فوج کو سیاست میں ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت ہوتی ہے تو کوئی پریشانی نہیں.
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ عمران خان بتائیں کہ فوج سے کس بات پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں؟ اس طرح وہ فوج کو سیاست میں مداخلت کے لیے مدعو کررہے ہیں۔ عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ جی ایچ کیو پر احتجاجی مظاہرے کا منصوبہ ان کا تھا۔ ان کا طرز سیاست تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ایک جانب وہ فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف وہ سول بالادستی کی بات کرتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ انہیں گھوڑے پر سوار کرکے وزیراعظم ہاؤس پہنچائے۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی جیسا واقعہ امریکا میں ہوتا تو پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی ہوتی۔ امریکی کانگریس پر حملے کے واقعے میں جن افراد پر الزامات ثابت ہوئے انہیں 14 برس کی سزا سنائی گئی ہے۔ تحریک انصاف ریاستِ پاکستان کے مفادات پر براہ راست حملہ کررہی ہے۔ جمہوریت میں ایسے طرز سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے انٹرویو میں مزید کہا کہ تحریک انصاف قوم اور اداروں سے معافی مانگے، اس کے بعد یہ قومی دھارے میں شامل ہو سکتی ہے۔ اداروں سے معافی مانگی جائے گی تو قومی سیاست میں راستہ بنے گا، ورنہ موجودہ طرز سیاست کے ساتھ پاکستان میں پی ٹی آئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف حکومت کی خواہش پر کسی پارٹی پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، اس کے لیے اعلیٰ عدلیہ سے توثیق بھی لازمی ہے۔ پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے فیصلہ بیرون ممالک مہم چلانے کے بعد لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف سیاسی لڑائی کو امریکی ایوان تک لے جا چکی ہے۔ پی ٹی آئی پر پابندی قانون اور آئین کے مطابق ہوگی۔ جب ادارے سمجھیں گے، تب پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ کرلیں گے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت چین کے سکیورٹی تحفظات دُور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ برادر دوست ملک چین کا مؤقف بھی یہی ہے کہ حملوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان جاری تعاون متاثر نہیں ہوگا۔ پاکستان چینی باشندوں کی حفاظت کو اپنی ذمے داری سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے چین یا امریکا سے تعلقات میں توازن رکھنا مشکل نہیں، پاکستان کو نہ ہی امریکا نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ ہی چین.