اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم دلیری کے ساتھ لے کر آئیں گے اور اپوزیشن سے کہتا ہوں آپ نے گھبرانہ نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاق وزیر نے کہا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ اس وقت آتا جب بل پیش کیا جاتا، سب سے پہلے حکومت مشاورت کرتی ہے پھر کابینہ منظوری دیتی ہے لیکن یہ بل ابھی کابینہ میں بھی نہیں گیا۔
انہوں نے کہ کہ ڈرافٹ پر پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا اور نہ سی سی ایل سی میں گیا جبکہ مسودے کی تیاری کے لیے ہماری مشاورت تمام اتحادی جماعتوں سے ہوئی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرٹیکل 8 اور 199 سے متعلق تجاویز تھیں جبکہ نیشنل سیکیورٹی سے متعلق کچھ مخصوص علاقوں سے متعلق ایک تجویز تھی، مسودہ لانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن مسودہ فائنل ہوتا تو سامنے لایا جاتا، پارلیمان کو آئینی ترامیم کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ انیس سو تہتر سے لیکر دو ہزار نو تک کھلواڑ کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم پاس کی گئی، ہم اپنے ان سینیئرز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ کون سی طاقت تھی جنہوں نے کہا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی، تعصب کی عینک سائیڈ پر رکھ کر آگے چلیں۔ چیف جسٹس نے چینی کے ریٹ کا تعین نہیں کرنا، چیف جسٹس نے نہیں کہنا کہ کون سی پارٹی کیسے چلے گی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی عدالت کی شکل کیا ہوگی، آئینی عدالت میں 7 سے 8 ججز ہوں جس میں وفاق کی تمام اکائیوں کی نمائندگی ہو جبکہ آرٹیکل 184 کو ریگولیٹ کریں گے۔ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کو 12 رکنی کرنے کی تجویز دی گئی جبکہ کمیشن میں 6 ججز، چار اراکین پارلیمنٹ، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔
انکا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات، دیوانی مقدمات، بینکنگ اور سروس ٹربیونل کے مقدمات سپریم کورٹ آتے ہیں جبکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنے مسائل بھی سپریم کورٹ جاتے ہیں اس لیے اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس آئینی پیکج میں بار کونسل ایسوسی ایشنز کا ذکر ہوا، جس بار کونسل نے اس کی مخالفت کی میں ذمہ دار ہوں گا۔ آئینی عدالتوں پر جوڈیشل کمیشن پر پاکستان کے رول پر وکلا برادری کب سے مطالبے کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ قاضی فائز آپ کے خوابوں میں زیا دہ آتے ہیں، ہم نے بھی دیکھا جو ڈیم بنانے کے نام پر ہمیں ہانکتے تھے۔