اسلام آباد: پنجاب میں الیکشن ٹریبونلز کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی جس میں پی ٹی آئی کے وکیل نے چیف جسٹس پر اعتراض کردیا۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مرضی کے ججز سے فیصلےچاہتے ہیں؟۔
دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم پہلے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سُن لیتے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ہم نے بینچ سے علیحدگی کی ایک درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ بیٹھ جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو عدالتی کارروائی کی آخری سماعت کا آرڈر پڑھنے دیں۔ آپ کو سنیں گے۔
وکیل حامد خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کردیا، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے خود کو کیس سے علیحدہ کرنا ہے تو کر لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، ہم دشمن نہیں ایک ملک کے بسنے والے ہیں، گزشتہ سماعت پر الیکشن کمیشن کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھیجا، ہم نے سیکھنا ہے کہ اداروں کو کام کرنے دیں، اختلافات کے ہونے سے انکار نہیں، خط و کتابت کی جاتی ہے۔ جس کا فائدہ نہیں ہوتا، خط و کتابت میں جو زبان استعمال ہوتی ہے، یہ طریقہ نہیں ملک چلانے کا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اب مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب جتنا جلدی ہو سکے انتخابی عذرداریوں کے فیصلے ہونے چاہییں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان سے تو ٹریبونلز کے فیصلے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان کی ایک دن بھی مدت نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ہمارے پاس بھی ایسے مقدمات آئے جو اسٹے پر چلتے رہے۔ ڈپٹی اسپیکر صاحب نے بھی حکم امتناع حاصل کرکے آئین کی خلافِ ورزی کی۔ اب شاید وہ ڈپٹی اسپیکر انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تنازعات ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اداروں پر حملہ کردیں۔ آئین کو پڑھنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا۔ آئین میں واضح ہے کہ ٹربیونل تشکیل دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت سے مشروط ہے۔ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ چیف جسٹس کے بھیجے ہوئے نام مسترد کر دے۔ الیکشن کمیشن چیف جسٹس سے ججز کا پینل بھی نہیں مانگ سکتا۔ تاثر دیا گیا کہ مقدمہ میری وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ حامد خان کے بیرون ملک ہونے کی درخواست آئی تھی، اس وجہ سے کیس تاخیر کا شکار ہوا۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے غلط خبروں پروضاحت کیوں نہیں کی؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں ملک میں نہیں تھا اس وجہ سے کسی خبر کا علم نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے کورٹ رپورٹنگ حقائق پر ہوتی تھی اب ڈالرز کے لیے ہوتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ صاحب مسئلہ حل ہوچکا، اب کیا چاہتے ہیں؟ ۔ کیا آپ اپنی مرضی کے ججز سے فیصلے کروانا چاہتے ہیں؟ درخواست گزار مرضی کا جج چاہے گا تو نظام انصاف ختم سمجھیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مرضی کے جج سے فیصلے کا کبھی نہیں کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ اداروں کے درمیان تصادم چاہتے ہیں؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اداروں کے درمیان پہلے ہی تنازع ہے۔
دوران سماعت جسٹس عقیل عباسی کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 8 میں سے 4 ٹریبونلز فنکشنل ہو گئے ہیں۔ اب 4 ٹریبونلز الیکشن کمیشن نوٹیفائی کرے گا، جس پر جسٹس عقیل عباسی نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ان ریٹائرڈ ججز کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی ہے ؟جسٹس میٹنگ منٹس میں نہیں کہا گیا رضامندی دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا رضامندی سے متعلق پیراگراف کیا حذف کیا جاسکتا ہے ؟ جھگڑا اختیارات سے تجاوز کرنے پر آتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ کیا کمیشن کونسل سے اوپر ہے جو کہے یہ جج ٹھیک ہے یہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مناسب طریقہ کار اپنائیں.