کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ درخواست گزار کے وکیل ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ صدر پاکستان نے 20 ستمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈریننس پر دستخط کردیے ہیں، جبکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈریننس اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موقف میں مزید کہا کہ قومی اسمبلی نے ایک سال قبل ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ کیا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم عدلیہ پر براہِ راست حملہ ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ نے خود عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے باقاعدہ نیا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے، سندھ ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے معاملات میں کیسے مداخلت کرسکتی ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کی ہے،سپریم کورٹ تقسیم ہوچکی ہے، آرٹیکل 199 کے تحت سندھ ہائیکورٹ غیر قانونی طور پر منظور ایکٹ کیخلاف درخواست سننے کی مجاز ہے۔
عدالت نے دلائل کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا.