کراچی:بیرون ملک مقیم پاکستانی گروپ نے پی آئی اے کی خریداری کیلئے 125 ارب روپے کی پیشکش کا دائرہ مزید بڑھادیا۔
النہانگ گروپ نے وزیرنجکاری، وزیرہوا بازی، وزیر دفاع سمیت دیگر متعلقہ حکام کو ایک اور مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں قومی ائیرلائن کی خریداری کے لیے کسی بھی دوسری کمپنی کے مقابلے میں 5 ارب کی اضافی خطیر رقم کی پیشکش کی گئی ہے۔
النہانگ گروپ کا کہنا ہے کہ حکومت کو سابقہ 125 ارب روپے کی پیشکش برقرار ہے، 5 ارب روپے مذکورہ رقم میں مزید اضافہ ہے، اگلے دوہفتے یا اس سے زائد مدت کی آفرکے ساتھ ہراہل گروپ سے 5 ارب روپے اضافی دینے کے لیے تیار ہیں۔
گروپ کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے 250 ارب روپے واجبات کی ادائیگی کرنے کی بھی یقین دہانی کراتے ہیں، ملازمین کی ادارے سے بے دخلی نہ کرنے، تنخواہوں میں ابتداء میں 30 فیصد بعد ازاں 100 فیصد اضافے کی پیشکش برقرار ہے۔
مزید پڑھیں: بیرون ملک پاکستانی گروپ کی پی آئی اے کو 125 ارب میں خریدنے کی پیشکش
گروپ کا کہنا ہے کہ انکا قومی ائرلائن کے لئے عمدہ بزنس پلان جبکہ فضائی بیٹرے میں جدید طیاروں کی شمولیت کا عزم بدستور قائم ہے، یہ پیشکش قومی ایئرلائن کے قیمتی اثاثوں کی اسکی جائز و اصل قیمت میں فروخت کے شفاف عزم کا اعادہ ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ یہ پیشکش پاکستان اور قومی پرچم بردارایئرلائن کے ساتھ دلی وابستگی کا مظہر ہے، نجکاری کمیشن کے لیے النہانگ گروپ کی جانب سے آفر پر فیصلہ کرنے کے لیے 15 روز وقت مناسب ہے، نجکاری کمیشن پی گزشتہ 10 ماہ سے قومی ادارے کے حوالے سے کام کررہی ہے۔
خط میں کہا گیا کہ النہانگ کا گروپ اگرچہ ابتدائی بولی کے عمل کا حصہ نہیں ہے مگر پی آئی اے کی منصفانہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کا حامی ہے، یہ النہانگ گروپ ہی کا ہی خاصہ ہے کہ 10 ارب کی بولی کو 125 ارب کے گرانقدر پیشکش سے ہمکنار کیا۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری، 85 ارب کی جگہ ایک بڈر کی صرف 10 ارب کی بولی
اس اقدام کا مقصد مسابقتی اور شفاف بولی کی پیشکش کے ذریعے ایک نیا معیار قائم کرنا ہے، پیشکش کا یہ عمل پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ایک متبادل حل کابھی ضامن ہے۔
بعض گروپوں کی جانب سے اس قسم کے مواقعوں پرحکومت کو گمراہ کرنے اور بولی لگانے کے عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، ایسے وقت میں جب ملک معاشی چیلنجز سے دوچار ہے، ملک کی ترقی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
حکومت کو اگلی قسط کے اجراء کے لیے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط کے ساتھ سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے، اس عمل میں کسی بھی طرح کی تاخیر ملک کی نازک معاشی بحالی کو مذید مصائب سے دوچارکرسکتی ہے۔