بھارت 20 برس سے ریاستی دہشتگردی کررہا ہے، خضدار واقعے میں فتنۃ الہندوستان ملوث ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی:ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور وفاقی سیکریٹری داخلہ نے کہا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق خضدار میں اسکول بس حملے میں فتنۃ الہندوستان ملوث ہے۔
زرائع کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل اور وفاقی سیکرٹری داخلہ آئی ایس پی آر کی اہم پریس کانفرنس جاری ہے۔

پریس کانفرنس کی ابتدا کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ خرم آغا نے کہا کہ خضدار میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا، اسکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا یہ حملہ اسکول پر نہیں ہماری اقدار پر حملہ تھا۔

وفاقی سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق واقعے میں فتنہ الہندستان ملوث ہے جو ہارڈ ٹارگٹ میں ناکامی کے بعد سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنارہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارت 20 برس سے ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے، بھارت خطے کا امن خراب کررہا ہے، 2009ء میں پاکستان نے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد پر مبنی ڈوزیئر اقوام متحدہ کو پیش کیا تھا۔

اس موقع پر انہوں نے خضدار واقعے میں شہید ہوئے اسکول کے بچوں کی تصاویر اور کچھ ویڈیو بھی دکھائیں۔

انہوں ںے کہا کہ ہم نے 2016ء میں بھی دہشت گردی کے ثبوت یو این او کو دیے تھے، بھارت دہشت گردوں کو فنڈز فراہم کرتا ہے مختلف واقعات میں گرفتار دہشت گردوں نے بھارت کے ان واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے، خضدار واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے جس میں بھارت کے حکم پر یہ واقعہ کیا گیا اور فتنہ الہندوستان بھارت کے حکم پر بچوں، مسافروں اور معصوم لوگوں کو شہید کرتا ہے۔

اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے بلوچستان میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات تاریخ وار بیان کیے جن میں مزدور کو شہید کیا گیا، متعدد واقعات میں لوگوں کو بسوں سے اتار کر مارا گیا،دھماکے کیے گئے، حملے کیے گئے، کئی بار حجام کی دکانوں میں موجود غیر مقامیوں کو شہید کیا گیا، جعفر ایکسپریس کا واقعہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ فتنہ الہندوستان کا اصل چہرہ ہے جس کی پشت پناہی بھارت کرتا ہے، کلبھوشن یادیو نے اپنے بیانات میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا اعتراف کیا ہے، فتنۃ الہندوستان کا تعلق کسی بلوچ قوم یا اسلام سے نہیں صرف ہندوستان سے ہے، بھارت ان کے ذریعے پورے بلوچستان میں دہشت گردی کرارہا ہے۔

اس موقع پر انہوں ںے بھارتی آرمی آفیسر میجر سندیپ کی آڈیو ریکارڈنگ پیش کی جس میں دو افراد بات کررہے تھےایک شخص نے کہا کہ بلوچستان سے لاہور تک ہمارے بندے بیٹھے ہیں، ہم کم اماؤنٹ بھیجیں گے تو پاکستانی خفیہ ادارے ایکٹو نہیں ہوں گے مگر ہم بڑا اماؤنٹ بھیجیں گے تو ادارے ایکٹو ہوجائیں گے اس لیے ہم اماؤنٹ ٹکڑوں میں بھیجیں گے، مگر میں آپ لوگوں کے تحفظ کے لیے الگ الگ اکاؤنٹ میں ٹکڑوں میں رقم دوں گا تاکہ آپریشن چلتا رہے، ہمیں کئی سال ساتھ چلنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ گفتگو ایک انڈین آرمی آفیسر کی تھی جو کس قدر کھل کر بات کررہا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھایا کہ بھارت نے جو ہماری مسجد اور مدرسوں پر حملے کیے اس کے پاس کیا ثبوت تھے کہ وہ دہشت گردوں کے اڈے تھے؟ ہم نے میڈیا کو جگہیں دکھائیں جب کہ ہمارے پاس بھارت کے خلاف شواہد موجود ہیں۔

انہوں نے بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے دہشت گردوں کی تصاویر دکھائیں جن کے پاس غیرملکی اور مہنگا ترین اسلحہ تھا جس میں اسنائپر رائفلز، نائٹ ویژن سمیت دیگر اہم آلات موجود تھے، انہوں ںے کہا کہ یہ مہنگا ترین اسلحہ ہے جو ڈالرز میں ملتا ہے ان غریب بلوچوں کو یہ اسلحہ کون فراہم کرتا ہے؟ بھارت انہیں پیسہ فراہم کرتا ہے، اسی طرح فتنہ الخوارج ہیں جن کے پاس افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 6 اکتوبر 2024ء کو چینی باشندوں پر حملہ ہوا اور انڈین میڈیا میں فوراً ہی رپورٹنگ شروع ہوگئی، اسی طرح جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تو اس سے پہلے ہی میڈیا میں خبریں آگئیں، اس لیے کہ منصوبہ بندی ہی وہیں ہوتی ہے، پاکستان میں خواتین اور بچوں کی اموات پر بھارت میں خوشی منائی جاتی ہے ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے؟

بھارت کی جانب سے بارڈر کراس کرنے والے 71 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، سارے دہشت گرد وہیں سے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان سے دہشت گرد یہاں آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا پوچھ رہی ہے کہ پہلگام میں کون سا پاکستانی ملوث ہے؟ پاکستان نے ہر فورم پر بھارت سے پہلگام واقعے کے ثبوت مانگے، پاکستان نے میڈیا کو وہ تمام جگہیں دکھائیں جس سے متعلق بھات نے دعویٰ کیا کہ وہاں دہشت گردی کے کیمپ ہیں وہاں کوئی ٹریننگ کیمپ نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں میڈیا آزاد نہیں وہاں اسٹیٹ میڈیا کنٹرول ہے، نام نہاد جمہوری ملک بھارت میں آزادی صحافت کا یہ حال ہے۔

انہوں نے کہا کہ 11 مئی کو بھارت نے بی ایل اے کے دہشت گردوں سے بیان جاری کرایا، بی ایل اے کے لوگ بھارتی ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، کیا ہم بی ایل اے کی دھمکیوں سے ڈر جائیں گے؟ دہشت گردوں کے سامنے پاکستان کی مسلح افواج سینہ ٹھوک کر کھڑی ہیں۔

انہوں نے عدیلہ بلوچ کا ویڈیو بیان پیش کیا جسے خودکش حملہ آور بنایا گیا تھا مگر وہ پکڑی گئی، عدیلہ بلوچ نے بتایا کہ اسے بلیک میل کیا گیا۔
صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے ناسور کے خلاف اسپیس کو squeez کرنا شروع کیا ہے اس کی آپ کو بہت سی نشانیاں نظر آتی ہیں، میں نے آپ کو ایک نشانی دکھائی کہ ابھی پانچواں مہینہ چل رہا ہے اس سال ہم صرف بلوچستان میں 200 سے زیادہ دہشت گرد مار چکے ہیں، گزشتہ سال ہم نے 250 کے قریب دہشت گرد مارے تھے، آپ کو ملٹری کی کارروائیاں نظر آ رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں غیر قانونی تجارت کے بہت سے راستے بند کیے جا رہے ہیں، جہاں سے دہشت گردوں کی فنڈنگ ہوتی ہے، جب ہم ان کے خلاف کارروائیاں کررہے تھے، بلوچستان یکجہتی کونسل کے خلاف بھی کارروائی ہوئی تو سب نے دیکھا کہ اب یہ لوگ جب نکلتے ہیں تو چند لوگ بھی ان کے ساتھ نہیں نکلتے کیوں کہ بلوچستان کے لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ ان کے بچوں کو مار رہے ہیں، شہریوں کو شہید کررہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ بھارتی پراکسیز کی دہشت گردی نے خود یہ ضرورت پیدا کی ہے کہ فوج کارروائی کرے، بھارت کی بوکھلاہٹ پورے میڈیا پر نظر آ رہی ہے کیوں کہ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہاں پاکستان میں تو عوام حکومت اور فوج سب اکٹھے ہیں، یہ سب دہشت گردی کو ختم کر دیں گے، ہم سب سمجھتے ہیں کہ یہ بلوچستان کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کی پراکسیز ہیں جو پیسوں کی خاطر معصوم بچوں سمیت دوسروں کو قتل کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمن کو پتا ہے کہ بلوچستان اس وقت ترقی کی جانب پرواز کے لیے تیار ہے، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، بڑی سرمایہ کاری بلوچستان میں شروع ہو رہی ہے، اس کے معاہدے ہو چکے ہیں، بلیو اکانومی بلوچستان کا بہت قیمتی سرمایہ ہے، ریکوڈک، کچھی کینال اور دیگر بڑے منصوبے وہاں شروع ہو رہے ہیں اسی طرح گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور گوادر پورٹ کے منصوبے بھی نمایاں ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 73 ہزار بلوچ طلبہ اس وقت بلوچستان حکومت کی فراہم کردہ اسکالر شپ پر مختلف جگہوں پر تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہاں 13 کیڈٹ کالجز ہیں، 321 ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس اور ہزاروں کالجز وہاں ہیں اور 350 کلومیٹر کا روڈ نیٹ ورک ہے جہاں سے بلوچستان نے سفر شروع کیا تھا، وہ اب 25 ہزار کلومیٹر سے اوپر جا چکا ہے، وہاں ڈائیلائسز سینٹرز اور اسپتال کا نیٹ ورک ہے، وہاں سوشل اکنامک ترقی ہو رہی ہے، بلوچستان میں دہشت گردوں کے مقابلے میں عبدالصمد یار جیسے لڑکے کھڑے ہیں، جو اسپیس سائنٹسٹ ہیں اسی طرح ان کے مقابلے میں آکسفورڈ یونین کے برطانیہ میں جو صدر ہیں، وہ آپ کے بلوچ بھائی ہیں وہاں پر عائشہ زہری جیسی بچیاں ہیں جو اپنے علاقوں میں ڈپٹی کمشنر ہیں، وہاں پر شاہ زیب رند ہیں، یہ سب بلوچستان کا اصل چہرہ ہیں اور اس سے دہشت گردوں کی پریشانی بڑھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ فوج دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے ساتھ میں کتنے سوشل اکنانومی منصوبوں میں مصروف ہے، چھوٹے چھوٹے سے لے کر گوادر کے مچھیروں سے لے کر اسپتالوں تک اسی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت بھی بلوچستان پر خاص توجہ دے رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں دہشت گردوں کے لیے پریشانی کا سبب ہیں،
یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں پہلگام میں ایک واقعہ ہوتا ہے، یہ تو ان کے اپنے ظالم کا نتیجہ ہے اور اسی طرح بلوچستان میں بھی بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی ہو رہی ہے ہم تو دنیا کو بتا رہے ہیں کہ خطے کو غیر مستحکم میں جس کا سب سے بڑا کردار ہے، وہ بھارت ہے اور اس کا آغاز 1971 می مکتی باہنی کے وقت ہوا تھا۔ اور اس کے علاوہ اس نے خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی یہی سازشیں اور دہشت گردی کی سرپرستی کی ہے۔

ایک اور صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ خرم آغا نے کہا کہ آپ دیکھیں جب پشاور اے پی ایس کا سانحہ ہوا، اس کے بعد ایک آپریشن ضرب عضب ہوا۔ دہشت گردی کے اعداد و شمار کم ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف ہر سطح پر تمام اقدامات کیے ہیں، دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا سکا، وہ سب کچھ کیا جائے گا۔

آخر میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ریاست انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے کیوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو، جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچے، یہی وجہ ہے کہ ہم انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے صرف ایک ہندوستان کی خطے میں اجارہ داری کی خواہش ہے کیوں کہ وہ خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے خاص طور پر وہ پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، اس کے لیے وہ پیسہ لگاتا ہے اور اس کے ثبوت سب کے سامنے ہیں۔ لہٰذا بے فکر رہیں، آپ اور ہم سب مل کر ان دہشت گردوں کو ختم کردیں گے، اور ہم نے کرنا ہے، اس کے بغیر گزراہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ میڈیا کا اس پورے معاملے میں بہت اہم کردار ہے۔ اسے بی وائی سی کی ماہ رنگ بلوچ جیسے کرداروں کے چہرے سے نقاب اتارنا چاہیے۔ یہ جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، تو انہیں جان لینا چاہیے کہ دہشت گردوں کا نہ تو انسانیت سے تعلق ہے نہ مذہب اور انسانی حقوق سے۔ یہ لوگ جن لاپتا افراد کی تصاویر اٹھائے پھرتے ہیں، ان میں سے بیشتر ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے ڈی این اے سے ثابت ہو جاتے ہیں۔ یہ سب دنیا کے سامنے کھل کر آ چکا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ اور ان کی بلوچستان یکجہتی کونسل دہشت گردی کی پراکسی ہیں، اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا، جو کوئی بھی اسٹیٹ دہشت گردوں کے ساتھ کرتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہونی چاہے، اس میں کوئی شک نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معرکہ حق میں ہم نے دیکھا کہ انڈیا میں امرتسر کے علاقے میں پروجیکٹائل فائر کیے، یہ سکھوں کا اکثریتی علاقہ ہے۔ ننکانہ صاحب جو پنجاب میں سکھ اقلیتوں کی مقدس جگہ ہے، وہاں جو ڈرون بھیجے گئے، وہ اس مقدس مقام پر حملے کے لیے بھیجے گئے تھے، جنہیں پاکستان نے ناکارہ بنایا۔ اسی طرح بھارتی میڈیا پر گولڈن ٹیمپل سے متعلق جو پروپیگنڈا کیا گیا ہے، اس کی کوئی توجیہ نہیں ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ ہم تو پاکستان میں سکھوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کرنے والے ہیں، انہیں سہولیات فراہم کرنے والے ہیں، پاکستان کو ایسے کسی اقدام کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا کو خود یہ عقل ہونی چاہیے کہ جھوٹ بناتے وقت، پروپیگنڈا گھڑتے وقت سوچنا چاہیے کہ ہم کیا بات کرنے لگے ہیں ہمارا تو سکھوں کے ساتھ ثقافت اور انسیت کا تعلق ہے، کرتارپور کوریڈور تو پاکستان نے آج بھی کھول رکھا ہے، بند تو اسے بھارت نے کر رکھا ہے بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے حاضر سروس جنرلز کو لاکر یہ جھوٹ بلواتے ہیں،پاکستان کا مذہب، ہماری اقدار ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم نہ کبھی شہریوں پر حملہ کرتے ہیں نہ کسی مقدس مقام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہمیں اسلام اس کا سبق نہیں دیتا۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے خلاف فوج کو استعمال کیا جائے اور اس کے لیے انہوں نے کسی ثبوت یا انسانی حقوق کا سہارا لیا نہ ہی عالمی قوانین کی پاسداری کی۔ وہ خود اپنی مرضی کے وقت پر آئے تھے۔ 80 ارب ڈالر کا دفاعی نظام بھی ان کے پاس تھا، ان کے ذہن میں اپنی پوزیشن بھی تھی کہ دنیا میں وہ کہاں ہیں اور پاکستان کہاں ہے؟ اسی طرح ان کے ذہن میں تھا کہ پاکستانی شاید تناؤ کی صورت حال میں ہیں اور اسی طرح بھارت کو اپنی پراکسیز پر بھی بہت انحصار تھا، اس طرح کی بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو پاکستان نے دور کردی ہیں۔ بھارت کو ہم نے رزلٹ دکھا دیا ہے اور اسے اب بھی اس طرح کا کوئی مزید شوق ہے تودوبارہ آ جائے، ہم تیار ہیں، ہم تو امن چاہتے ہیں، لیکن اگر آپ کوخود سے متعلق کوئی غلط فہمی یا گھمنڈ ہے اور آپ سمجھتے کہ ہم پاکستان کو نقصان پہنچا سکتے تو اسے آزما لیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ سیز فائر کا مطلب ہے کہ فائر رک گیا، کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان اور بھارت کے جو بنیادی تنازع ہیں، جہاں سے اختلافات شروع ہوتے ہیں، کیا وہ حل ہوگئے؟؟ نہیں اس میں بہت سے مسائل ہیں، اگر دیکھا جائے تو تین بنیادی ہیں۔ سب سے پہلا بھارتی سیاسی مائنڈ سیٹ جو موجودہ سیاسی اشرافیہ کا ہے یہ سب کو نظر آ رہا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو چاہے کر سکتے ہیں لیکن ہم بار بار کہتے ہیں کہ ایسی حماقت نہ کرنا۔

دوسرا مسئلہ کشمیر کا ہے، پاکستان اور ہندوستان میں جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، امن نہیں ہو سکتا۔ دراصل تو کشمیر کا مسئلہ وہاں کے عوام اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ وہاں انہوں نے 7 لاکھ سے زیادہ فوج بھیج رکھی ہے، جہاں لوگوں پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ پہلگام کے بعد بھی ہزاروں کی تعداد میں پکڑ دھکڑ کے ساتھ لوگوں کو غائب کردیا گیا ہے۔ درجنوں گھروں کو مسمار کردیا گیا ہے، بھارت میں بہت سے اندرونی معاملات ہیں، جسے وہ حل نہیں کرتے، جس میں اقلیتوں کو دبانا اور ان کے خلاف ظلم برپا کرنا ہے، جس کا جب ردعمل آتا ہے تو وہ اسے پاکستان سے جوڑتے ہیں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کو ایک پاکستان کے خلاف آلے کے طور پر استعمال کیا ہے اب یہ ایک ملک میں فتنۃ الخوارج یا فتنۃ الہندوستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے تو کیا ان سب مسائل کے ساتھ ہوتے ہوئے ہمارے بنیادی مسائل حل ہو سکتے ہیں؟ پاکستان نے خطے میں امن کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم آپ کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں۔ بھارت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی ہوگا۔

سندھ طاس معاہدے اور پانی بند کرنے سے متعلق ایک اور صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بہت واضح انداز میں کہا ہے کہ پاکستان کے عوام کے حق پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا ہو سکتا نہ اپنا حق لینے کے لیے کسی اقدام سے گریز کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہ سوچ سکے کہ 24 کروڑ سے زائد عوام کا پانی بند کیا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کے واقعات پر کسی بڑے آپریشن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور ہم اس کا بہادری سے مقابلہ بھی کررہے ہیں۔ یہ دہشت گرد عوام کے اندر بھی رہتے ہیں، اس لیے ہم ان کا قلع قمع کرنے کے لیے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کرتے ہیں۔ ہمارے لیے لوگوں کی زندگی، ان کا روزگار اور معمولات زندگی اہم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسا کہنا کہ کوئی بڑا آپریشن شروع کیا جائے تو ہم ڈیڑھ سو سے زیادہ آپریشنز روزانہ کرتے ہیں اور یہ سب اتنے غیر محسوس انداز میں کیا جاتا ہے کہ ہم سب اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہیں جب کہ فورسز آپریشنز میں مصروف ہیں تاکہ عوام کی خوشحالی اور ان کا کاروبار زندگی متاثر نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد اب فورسز کا سامنا کرنے کے بجائے اب سافٹ ٹارگٹ کی طرف جانے لگے ہیں، وہ عام عوام، مزدوروں، بچوں وغیرہ پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گرد بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں اور وہ اسی چیز پر حملہ کرتے ہیں، لہٰذا یہ طے ہے کہ جھوٹ کی بنیاد پر بنا ہوا بیانیہ یا بھارت کے پیسے پر بنا ہوا بیانیہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں