فوٹو: فائل
اسلام آباد:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کا ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق ہے۔
عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججز کا ٹرانسفر درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کو نئی تقرری نہیں قرار دیا جاسکتا۔عدالت نے ججز کی سنیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کردیا۔Pakistani restaurants
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے۔ صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔ جب تک صدر مملکت سنیارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔
اکثریتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر کا ججز کے تبادلے کا آرٹیکل 200کے تحت اختیار کسی قانون سے مشروط نہیں۔ قانون کا کوئی سیکشن آرٹیکل 200کے اختیار کو سپر سیڈ نہیں کرسکتا۔آرٹیکل 200میں ججز کے تبادلے کا پورا میکنیزم دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق جج اگر رضامندی نہ دے تو تبادلے کا عمل وہیں ختم ہوجاتا ہے۔ جج کی رضا مندی کے بعد چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کا آئین میں کہا گیا ہے۔ ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز نہیں ہوتی۔ تبادلے کو تسلیم کرنا یا مسترد کرنا عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 کی ذیلی شق (1) کے تحت صدرِ پاکستان کو جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کے جو اختیارات حاصل ہیں، وہ آئین کے آرٹیکل 175-A کے تحت سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کی تقرری کے لیے عدالتی کمیشن آف پاکستان (“JCP”) کے اختیارات سے بالکل الگ اور مختلف ہیں۔Pakistani restaurants
فیصلے کے مطابق یہ دونوں علیحدہ شقیں ہیں جو مختلف حالات اور نکات سے متعلق ہیں۔ یہ نہ ایک دوسرے پر سبقت رکھتی ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو ختم کرتی ہیں۔آرٹیکل 200 کے تحت جج کا (عارضی یا مستقل) تبادلہ تقرری، نئی تقرری تصور نہیں کی جاسکتی۔
اکثریتی فیصلے کے مطابق در کو یہ اختیار آئین سازوں نے دیا ہے، جس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسامی خالی تھی تو اسے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے نئی تقرری سے کیوں نہ پُر کیا گیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں جج کا تبادلہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ منظور شدہ تعداد کے اندر ہو اور یہ تبادلہ سمجھا جائے گا، نئی تقرری نہیں۔
تین ججز کے اکثریتی فیصلے کے مطابق دیانت داری سے دیکھا جائے تو اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام اسامیاں صرف جوڈیشل کمیشن کے ذریعے نئی تقرریوں سے پُر ہونی چاہئیں، تو یہ نہ صرف آئین سازوں کی منشا کے خلاف ہوگا، بلکہ آرٹیکل 200 کو غیر مؤثر بنانے کے مترادف بھی ہوگا۔ آرٹیکل 200 نہ آرٹیکل 175-A سے نہ تو منسلک ہے، نہ اس کی تابع ہے اور نہ ہی اس پر انحصار کرتی ہے۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 200 کا اطلاق صرف ججوں کے تبادلے (عارضی یا مستقل) پر ہوتا ہے، جب کہ ججوں کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کے سیکشن 3 کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک چیف جسٹس اور 12 جج صاحبان مختلف صوبوں اور علاقوں سے مقرر کیے جا سکتے ہیں۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہماری رائے میں یہ صرف تقرری سے متعلق ہے اور یہ لازم نہیں کہ کوئی جج صرف نئی تقرری کے ذریعے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں شامل ہو۔ آرٹیکل 200 تبادلے کو کور کرتا ہے اور یہ سمجھنا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تقرری صرف نئی تقرری سے ممکن ہے، آئین کی روح کے خلاف ہوگا۔
فیصلے کے مطابق اسی طرح ہائی کورٹ ایکٹ کی دفعہ 3 آئینی اختیار پر فوقیت نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی وہ صدرِ پاکستان کو آرٹیکل 200 کے تحت حاصل اختیارات کو کالعدم یا محدود کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 200 کے تحت صدرِ پاکستان کو ججوں کے تبادلے کے اختیارات غیر محدود یا بے قاعدہ نہیں ہیں۔Pakistani restaurants
اکثریتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ججز تبادلے کے عمل میں 4 مراحل پر جوڈیشل سائیڈ سے رائے آتی ہے۔ کوئی بھی جج تب تک ٹرانسفر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ رضامند نہ ہو۔ صدر کو چیف جسٹس آف پاکستان اور متعلقہ دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت کرنا لازم ہے۔ اگر کسی مرحلے پر متعلقہ عدالت تبادلے کی تجویز کو مسترد کر دے تو معاملہ ختم سمجھا جائے گا۔Pakistani restaurants
فیصلے میں کہا گیا کہ حتیٰ کہ جج کی رضامندی کی صورت میں بھی صدر کو 2 متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مشورہ کرنا لازم ہے۔ یہ مشاورت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ تمام عوامل (مثلاً عوامی مفاد) پر غور کر سکیں۔Pakistani restaurants
فیصلے کے مطابق یہ واضح ہے کہ تبادلے کا اختیار عدلیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے، نہ کہ انتظامیہ کے اور نہ ہی اس سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر نہیں ہوتی ہے۔
اکثریتی فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس بلال شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پہنور نے دیا جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریت سے اختلاف کیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اپنے اختلافی فیصلے میں کہا کہ تبادلے کے خلاف درخواستیں منظور کی جاتی ہیں ۔ جج تبادلے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔ صدر مملکت کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ دراخواست گزار وں کا کہنا ہے عدلیہ میں مداخلت کا نوٹس لینے کی سزا دی گئی۔
اختلافی فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے پڑھ کر سنایا، جس کے اختتام پر انہوں نے شعر بھی پڑھا:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
قبل ازیں سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آئین کے آرٹیکل کی ہم آہنگ تشریح کرے۔ آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 175 میں ٹکراؤ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا کوئی اختیار نہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خالی جج کی سیٹ پر مستقل تبادلہ نہیں ہو سکتا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی نمبر 3 کے جج کی انرولمنٹ اسلام آباد بار کونسل کی ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا ماضی میں کسی جج کا آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ ہوا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ججز ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں۔ ججز ٹرانسفر میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار محدود ہے۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہیں۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں بد نیتی منسوب نہیں کی جا سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کا ایک پورا طریقہ آرٹیکل 200 میں دیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس اور بزنس رولز کیخلاف کوئی استدعا نہیں کی گئی۔
وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ کبھی نہیں کہا تبادلہ پر آئے ججز ڈیپوٹیشنسٹ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ لکھا گیا ہے۔ ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کیسے کہا جا سکتا ہے؟
عدالت نے دلائل سننے کے بعد کارروائی مکمل کی اور کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے آج دوپہر دو بجے جاری کردیا گیا۔
واضح رہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر ،جسٹس محمد آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا۔ 3 ججز کے ٹرانسفر کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے 5 ہائی کورٹ ججز میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔
ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر 19 سماعتیں ہوئیں، پہلی سماعت 17 اپریل کو ہوئی تھی جب کہ سپریم کورٹ میں 20 فروری کو درخواستیں دائر ہوئی تھیں