پاکستان میں صحافیوں کو کام کرنے کیلیے محفوظ ماحول فراہم ہونا چاہیے؛ امریکا

واشنگٹن: امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے کام کی اجازت اور مکمل تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔

امریکی وزارت خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ چاہے امریکا ہو، پاکستان ہو یا غزہ کی پٹی ہو، ہر جگہ صحافیوں کو تحفظ ملنا چاہیے۔

امریکی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو اپنا کام آزادانہ طور پر جاری رکھنے کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک صحافی نے کہا کہ حال ہی میں 2 درجن پاکستانی لڑکیوں نے 2 ہفتے قبل محکمہ خارجہ کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ ایک تعلیمی پروگرام کے تحت تھا۔ ان طالبات نے اس پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کرنے کو کہا جو میں ان کی جانب سے ادا کر رہا ہوں۔

بعد ازاں صحافی نے سوال پوچھا کہ پاکستان میں 50 ہزار افغان باشندے امریکا لائے جانے کے منتظر ہیں اور میری معلومات کے مطابق ان پر امریکی وزارت خارجہ ہر ماہ 20 ملین ڈالر خرچ کر رہی ہے۔ کیا یہ ٹیکس دہندگان کی رقم کا اچھا استعمال ہے؟ اور یہ بھی کہ آیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں جیسے کہ ۔۔۔

اس موقع پر امریکی ترجمان مسٹر ویدانت پٹیل نے صحافی کے سوال کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ خاص طور پر ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو SIV ہیں۔

جس پر صحافی نے کہا کہ وہ 50 ہزار افغان شہری ہیں جو پاکستان میں اس لیے رکے ہوئے ہیں کیونکہ ان کو امریکا لانے کا عمل کیا جا رہا ہے۔

امریکی ترجمان نے جواب دیا کہ امریکا کے وہ افغان اتحادی اور شراکت دار جو مختلف راستوں کے ذریعے امریکا منتقل ہونے کے اہل ہوسکتے ہیں، چاہے وہ SIVs ہوں یا دیگر، ہم ان درخواست دہندگان پر جلد سے جلد کارروائی کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

ترجمان ویدانت پٹیل نے مزید کہا کہ یقیناً اس حوالے سے ہم پاکستان کے معاملے میں بعض میزبان ممالک کی شراکت کو سراہتے ہیں اور ہم ان کی امریکا منتقلی کی درخواستوں پر تیزی اور مؤثر طریقے سے کارروائی کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔

صحافی نے پھر سوال دہرایا کہ لیکن میں جو پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان 50 ہزار افغانوں میں سے کچھ ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں جس پر امریکی ترجمان نے کہا کہ فی الحال اس پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

صحافی نے دوسرا سوال کیا کہ پاکستان میں کئی صحافیوں نے اب یہ اصطلاح “ایمرجنسی” استعمال کرنا شروع کر دی ہے، جو بنیادی طور پر ملک میں مارشل لاء کے متبادل قدرے ہلکا اور میٹھا لفظ ہے۔ کیا آپ کے کانوں سے یہ بات گزری ہے کہ پاکستان میں یہ بحثیں چل رہی ہیں؟

جس امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نفی میں جواب دیا.

اپنا تبصرہ بھیجیں