اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا ہے کہ انتظامیہ آخری وقت پر پی ٹی آئی جلسے کا این او سی کیوں معطل کرتی ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے ترنول اسلام آباد جلسے کا این او سی معطل کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت کی۔
وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ ہمیں جلسے کی اجازت دی گئی اور پھر آخری دن این او سی معطل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کا کیوں بتاتے ہیں؟ یہ لوگ ایک پارٹی کے سپورٹر ہیں لیکن اس سے پہلے انسان اور پاکستان کے شہری ہیں، انتظامیہ آخری وقت پر جا کر جلسے کا این او سی کیوں معطل کرتی ہے؟ لوگ دور دراز علاقوں سے چل چکے ہوتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے جلسہ معطل ہو گیا، آپ پہلے بتا دیا کریں کہ سیکیورٹی خدشات ہیں اجازت نہیں دے سکتے، یہ پہلے بتائیں جو بھی بیس پچیس ہزار لوگ آنے ہوتے ہیں اُن کی جان کو خطرہ ہے، وہ کوئی بےحس لوگ تو نہیں کہ انہوں نے پھر بھی اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالنا ہے، محرم ہو گیا، ختم نبوت والے آ گئے، اب آگے کیا ہونا ہے وہ بھی بتا دیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت کا شکریہ کہ انہوں نے جلسہ ملتوی کر دیا، ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اگلی اجازت بھی دیدی۔
ایڈوکیٹ جنرل نے 8 ستمبر کو جلسے کی اجازت کی یقین دہانی کروادی جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت دس ستمبر تک ملتوی کردی.