عالمی عدالت میں غزہ پر امدادی ناکہ بندی پر اسرائیل کیخلاف سماعت

عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل روکنے پر درجنوں ممالک کی شکایت پر سماعت کا آغاز آج ہوگا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آج سے شروع ہونے والی ابتدائی سماعت میں فلسطینی نمائندے اپنے دلائل پیش کریں گے۔

اگلے پانچ روز تک جاری رہنے والی ان سماعتوں میں تقریباً 40 ممالک اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

امریکا بدھ کے روز عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرے گا جب کہ اسرائیل خود ان سماعتوں میں شریک نہیں ہوگا۔

درجنوں ممالک نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے کہ صیہونی ریاست نے 2 مارچ 2025 سے غزہ کے 2.3 ملین باشندوں کے لیے تمام رسد بند کر دی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ اس سے قبل ہی جنگ بندی کے دوران غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے لیے جمع کیا گیا غذائی ذخیرہ تقریباً ختم ہو چکا تھا اور پھر رسد بند ہوجانے سے بھوک سے ہلاکتوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر میں اقوام متحدہ نے عالمی عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک مشاورتی رائے دے کہ اسرائیل کی ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں، بشمول اقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطینیوں کے لیے فراہم کردہ امداد کی ترسیل میں کیا ذمہ داریاں ہیں۔

جس پر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس تمام باقی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی، تب تک وہ غزہ میں امداد داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔

گزشتہ ہفتے جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی امداد کے بلا تعطل داخلے کی اجازت دے۔
تاہم اسرائیل نے امداد روکنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ ہے۔

قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کی اجازت دیں۔

اسرائیل کا یہ بھی الزام ہے کہ حماس انسانی امداد کو ہتھیا لیتی ہے جبکہ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور غذائی قلت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔

دسمبر میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں، جس کے حق میں 193 میں سے 137 ممالک نے ووٹ دیا تھا، اسرائیل پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فلسطینی آبادی کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

قرارداد میں غزہ میں انسانی بحران پر “گہری تشویش” کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کے خلاف اسرائیل، امریکا اور دیگر 10 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 22 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے قانونی اور سیاسی اہمیت رکھتی ہے، تاہم یہ رائے پابند نہیں ہوتی اور عدالت کے پاس اس پر عملدرآمد کروانے کا اختیار نہیں ہوتا۔

اقوام متحدہ غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی مقبوضہ علاقے سمجھتی ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق کسی مقبوضہ علاقے کی قابض طاقت پر لازم ہے کہ وہ مقامی آبادی کو امداد فراہم کرنے اور خوراک، طبی سہولیات، صفائی اور صحت کے معیار کو یقینی بنانے میں سہولت فراہم کرے۔

اسرائیل کے خلاف غزہ ناکہ بندی اور امدادی سامان کی ترسیل کی بندش پر سماعت چھ روز میں مکمل ہوجائیں گی لیکن عالمی عدالت کا اس پر مشاورتی رائے سامنے آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں