اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی ریفرنس کی سماعت شروع ہو گئی ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ اس حوالے سے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوپھانسی کیس میں صدارتی ریفرنس پر 11 سال کے بعد سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔ قبل ازیں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 12 نومبر 2012ء کو ہوئی تھی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آ گئے۔ اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
دوران سماعت بلاول بھٹو زرداری نے فریق بننے کی درخواست دے دی۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو ورثا کے طور پر بھی سُن سکتے ہیں اور سیاسی جماعت کے طور پر بھی۔ صدراتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے، یہ واپس نہیں لیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجھے کوئی ہدایات نہیں ملی کہ یہ ریفرنس نہ سنا جائے۔
چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک سینئر ممبر بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے ۔ 2 اور ججز نے ذاتی وجوہات پر معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بنیچ تشکیل دیا گیا ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس صدر نے اس ریفرنس کو فائل کیا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری تھے، جنہوں نے ریفرنس دائر کیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا اس ریفرنس کے بعد کتنے صدر آئے، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 2 صدور اس ریفرنس کے بعد آئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنے لمبے عرصے تک کیس دوبارہ فکس نہ ہونے پر بطور چیف جسٹس پاکستان معذرت چاہتا ہوں۔
جسٹس منصور شاہ کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھ دیے۔ ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001ء کا بھی حوالہ شامل ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔ 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ احمد رضا قصوری نے روسٹرم پر آکر نسیم حسن شاہ کے نوائے وقت میں انٹرویو کا حوالہ دے دیا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے؟ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں۔ صدراتی ریفرنس کی نمائندگی کس نے کی تھی؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈووکیٹ بابر اعوان اس وقت صدارتی ریفرنس میں وکیل تھے۔ وہ اس وقت عدالت میں موجود نہیں ہیں۔ احمد رضا قصوری نے عدالت کو بتایا کہ میں نے ریفرنس پر تحریری جواب جمع کرایا، میرے جواب میں بابر اعوان غصے میں آگئے اور عدالت کو. مطمئن نہیں کرسکے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا تھا۔ بابر اعوان اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا، کیا کوئی بتائے گا کیوں؟ کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟۔ احمد رضا قصوری نے جواب دیا کہ عدالت کسی عالم کو بلائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے علی احمد کرد، طارق محمود، خالد انور اور مخدوم علی خان کو معاون مقرر کیا تھا۔ ہم. دیکھیں گے جو عدالتی معاون دستیاب نہیں ان کے متبادل کون ہوں گے۔
اس موقع پر وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی ہامی بھر لی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کے لیے مشاورت کے بعد مزید نام دیں گے۔ اعتزاز احسن نے عدالتی معاون بننے سے معذرت کرلی۔ سپریم کورٹ میں مخدوم علی خان اور اعتزازاحسن کے معاونین وکلا پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعتوں کے حکم نامے پڑھ کر سنائے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اصل ریکارڈ نہیں ملا۔ فاروق نائیک نے بتایا کہ ریکارڈ میں تین بنڈل آئے تھے۔
جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جب یہ سارا کیس چلا، ملک میں آئین موجود تھا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت ملک میں مارشل لا تھا۔ فاروق نائیک نے بتایا کہ کیس میں شکایات دائر ہوئی تھیں، اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا۔ عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا ؟، جس پر وکیل فاروق نائیک نے بتایا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں۔ ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا۔اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کبھی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں۔ ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے۔ ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیے جائیں۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے ذولفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہو چکی، عدالت ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟۔ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم ہوئے معاملے کو دوبارہ کھولے؟ ۔ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے؟۔یہ بہت اہم سوال ہے۔کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟۔سوال یہ ہے کہ قانونی سوال کیا ہے؟۔ کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے؟۔ پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ صدارتی ریفرنس پر دوبارہ سماعت جنوری میں کی جائے گی۔ حکم نامے کے مطابق ذوالفقار بھٹو کا کوئی بھی وارث چاہے تو عدالتی کارروائی میں شامل ہو سکتا ہے۔ عدالتی کارروائی کو لائیو دکھایا جا رہا ہے، اس کا کریڈٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر کو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک کی لائیو اسٹریمنگ کی درخواست نمٹائی جاتی ہے۔ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے گا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو ریفرنس کو حکومت نے واپس نہیں لیا، حکومت نہ ہی صدارتی ریفرنس کو واپس لینا چاہتی ہے۔ صدارتی ریفرنس پر 21 اپریل 2011 کو سوالات فریم کیے گئے۔ عدالتی کارروائی کے دوران کئی عدالتی معاون مقرر ہوئے، ان میں سے کچھ معاونین دنیا میں نہیں رہے۔ بھٹو ریفرنس بڑا اہم ہے، مخدوم علی خان، علی احمد کرد معاونت کے لیے تیار ہیں۔ مناسب ہوگا مزید عدالتی معاونین کا تقرر کیا جائے۔ جسٹس (ر) منظور ملک کو بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ عدالتی معاون تحریری یا زبانی طور پر معاونت کرسکتے ہیں۔ خواجہ حارث بطور ایڈووکیٹ جنرل پنچاب اس کیس کا حصہ رہ چکے ہیں، انہیں بھی عدالتی معاون مقرر کیا جاتا ہے۔ سلمان صفدر ، رضا ربانی ، خالد جاوید ، زاہد ابراہیم اور یاسر قریشی کو بھی معاون مقرر کرتے ہیں ۔
عدالتی معاونین فوجداری اور آئینی معاملات پر رائے دیں۔ ریفرنس میں ایک انٹرویو کو بھی حوالہ بنایا گیا ہے۔ احمد رضا قصوری نے بھی نسیم حسن شاہ کی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جسٹس دراب پٹیل کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا۔ فاروق ایچ نائیک اس انٹرویو کی ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کریں گے۔ نسیم حسن شاہ کا انٹرویو فراہم کرنے کے لیے نجی ٹی وی چینل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق آخری سماعت پر سپریم کورٹ بار اور عاصمہ جہانگیر کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار بھی اپنا وکیل مقرر کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ یہاں کسی کا دفاع نہیں ہو رہا، یہ ایک صدارتی ریفرنس ہے۔ جو بھی آنا چاہے ہم اسے سنیں گے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے حکم نامے میں مزید کہا کہ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے کے ساتھ کئی آئینی سوالات ہیں۔ عدالت کو قانونی ماہرین کی رائے کی معاونت درکار ہوگی۔ آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے۔ کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے۔
دوران سماعت احمد رضا قصوری نے مزید سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئے۔ اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے۔ اب یہ ریفرنس دیر آید درست آید پر ہے۔ جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔
واضح رہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کیس کے فریقین کو سماعت کے حوالے سے نوٹس جاری کررکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس حوالے سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عدالتی کارروائی سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر دکھائی جائے گی۔