امریکا نے بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو شرم ناک قرار دے دیا

امریکا: 22 اپریل 2024ء کو امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تفصیلی رپورٹ جاری کی، رپورٹ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری اینٹونی بلنکن کی جانب سے پیش کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیاں شرمناک حد تک بڑھ چکی ہیں، رپورٹ میں منی پور، بی بی سی دفتر پر غیر قانونی چھاپے اور راہول گاندھی کی دو سالہ قید کی سزا کا ذکر کیا گیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی انسانی حقوق اور مذہبی آزادی پر سابقہ رپورٹ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، 2023 میں بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں کوکی اور میتی قبیلوں کے درمیان نسلی تنازعہ کا آغاز ہوا جس کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق 3 مئی سے 15 نومبر کے درمیان کم از کم 175 افراد ہلاک اور 60,000 سے زیادہ بے گھر ہوئے، منی پور میں بڑے پیمانے پر مسلح تصادم، عصمت دری، گھروں، کاروبار اور عبادت گاہوں کی تباہی ہوئی، منی پور فساد کے متاثرہ افراد، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے مودی سرکار کی انتشار اور تشدد روکنے میں ناکامی پر کڑی تنقید کی۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مودی سرکار کی جانب سے سول سوسائٹی کی تنظیموں، مذہبی اقلیتوں، جیسے سکھوں و مسلمانوں، اور سیاسی اپوزیشن کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کے بھی بے شمار واقعات رونما ہوئے، جموں و کشمیر میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے پرتشدد تفتیش کی بھی متعدد رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2019 سے اب تک 35 سے زائد صحافیوں پر بھارتی فوج کے حملوں، تفتیش، چھاپوں، من گھڑت مقدمات، اور نقل و حرکت پر پابندیوں کی رپورٹ موصول ہوئی، بی بی سی کے دفتر پر بھی بھارتی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے غیر قانونی طور پر چھاپا مارا اور ان لوگوں کو بھی نقصان پہنچایا جن کا فنانس ڈیپارٹمنٹ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

بی بی سی کی مودی پر تنقیدی ڈاکیومنٹری ریلیز ہونے کے بعد ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے مودی کے حکم پر دفتر پر چھاپا مارا، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے 2023 میں آزادی صحافت کے انڈیکس میں بھارت کو 180 ممالک میں سے 161 نمبر پر رکھا، انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مودی کے دور میں ماحول انتہائی خراب ہوا ہے۔

رپورٹ میں مودی کے زیرِ اقتدار نفرت انگیز تقاریر میں اضافے، کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ “بنیادی طور پر امتیازی” قرار دیتا ہے اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کی املاک کی مسماری کا بھی ذکر کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں