مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہزاروں سال پرانے پوشیدہ پیغام کا سراغ لگالیا گیا

زیوریخ: محققین نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے 2000 سال پُرانے دستاویز پر لکھے پوشیدہ پیغام کا سراغ لگا لیا۔
چارکول کے ٹکڑے جیسے دکھنے والی دستاویز کو ڈیجیٹلی اسکین کرنے کے بعد حروف کی نشان دہی اور رقعے کی ورچوئلی تہہ کھولنے کے لیے محققین نے تھری ڈی میپنگ اور مصنوعی ذہانت کی تکنیک کا سہارا لیا۔
یہ تصنیف فلوڈیمس نامی فلسفی کی تھی جس میں انہوں نے غذائی قلت کے انسانوں پر اس سے حاصل ہونے والی راحت پر پڑنے والے اثرات کے متعلق خیالات کا اظہار کیا تھا۔
یہ کامیابی تین محققین کی ٹیم ( فرئی یونیورسٹیٹ کے یوسف نادر، یونیورسٹی آف نیبراسکا-لنکن کے لیوک فیریٹر اور سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی زیوریخ سے تعلق رکھنے والے جولین شیلیگر) نے مل کر حاصل کی اور اب ٹیم پُر امید ہیں کہ اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے مزید تحریروں کو پڑھا جا سکے گا۔
یہ رقعے اٹھارویں صدی میں ایک کاشتکار نے قدیم علاقے ہرکیولینیم پر کنواں کھودتے ہوئے ملنے والے رومی ولا میں دریافت کیے تھے۔
واضح رہے آتش فشانی ملبے کی تپش کے سبب ایسے رقعوں کی بڑی تعداد جل جانے کی وجہ سے انتہائی نازک لیکن سالم حالت میں تھی۔
اس سے قبل رقعوں میں لکھی تحریروں کو پڑھنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سبب متعدد کو خراب کر دیا گیا جبکہ باقی مانندہ 600 سے زائد رقعے ویسے ہی چھوڑ دیے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں