ڈپٹی کمشنر اسلام آباد توہین عدالت کے مرتکب قرار،فیصلہ انٹرا کورٹ میں چیلنج

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیا۔ڈپٹی کمشنرنے فیصلہ کیخلاف انٹرا کورٹ میں اپیل کردی۔

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت پر 6 ماہ قید کی سزا سنائی تاہم مختصر ہونے کے باعث سزا ایک ماہ کے لیے معطل کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک ماہ کے دوران اپیل دائر کرنے اور فیصلے کی کاپی وزیراعظم کو بھجوانے کی ہدایت کی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ ایس پی فاروق بٹر کو عدالت نے کیس سے ڈسچارج کر دیا۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن نے توہین عدالت کیس کا فیصلہ انٹرا کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بری کرے۔ ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر نے بھی سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔

تحریری فیصلے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کو 6 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے جبکہ ایس ایس پی آپریشنز جمیل ظفر کو 4 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایس ایچ او مارگلہ 2 ماہ قید، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ تینوں ملزمان اپنی سزا اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کاٹیں گے۔ تینوں ملزمان کی سزا ایک ماہ تک معطل رہے گی تاکہ وہ فیصلے کیخلاف اپیل دائر کر سکیں۔

فیصلے کے مطابق تینوں ملزمان سرکاری عہدوں پر فائز ہیں جن کی فوری معزولی سے کار سرکار میں خلل پیدا ہوگا۔ سزا معطلی سے حکومت کو اس فیصلے پر عملدرآمد کا معقول وقت بھی مل جائے گا۔تینوں ملزمان پر عائد جرمانے کی رقم ان تمام افراد میں برابر تقسیم کی جائے جن کی مئی تا ستمبر نظر بندی کے احکامات جاری کیے جاتے رہے۔ یہ جرمانہ ان افراد کیلئے غیر قانونی نظر بندی کا حرجانہ نہیں دے سکتے۔

تحریری فیصلے میں وزیراعظم سے ایم پی او آرڈرز پر تحقیقات کرانے کا حکم دیتے ہوئے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا ایم پی او آرڈرز آئین، قانون اور عدالتی احکامات کے خلاف منظم انداز میں جاری کیے گئے؟ تحقیقات کرائیں کہ کیا ایم پی او آرڈر کسی غیر قانونی احکامات کی بنیاد پر جاری کیے گئے؟

فیصلے میں کہا گیا ہےکہ اگر ایسا ہے تومناسب اقدامات کر کے یقینی بنائیں کہ ریاست کو منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعے چلایا جائے۔ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا ایم پی او کے تحت نظربندی احکامات کے لیے کوئی پالیسی موجود تھی۔ کیا ایم پی او آرڈرز کو شہریوں کے بنیادی حقوق کو پامال اور عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کیاگیا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں