آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونیکا امکان ہے، وزیر خزانہ

اسلام آباد: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم مئی کے وسط میں پاکستان آئے گی جبکہ اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونے کا امکان ہے۔

اسلام آباد میں بزنس سمٹ 2024 سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں آئی ایم ایف بورڈ کا رواں ہفتے آنے کا امکان ہے اور اس ہفتے کے آخر تک قسط ملنے سے زرمبادلہ ذخائر بہتر ہو جائیں گے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ 24 ویں آئی ایم ایف پروگرام میں ہم جا رہے ہیں لیکن اس کے بعد بھی کوئی پروگرام ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنے کا ہدف رکھا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کا پروگرام ہے اور کوئی ہم سے کچھ نہیں کروا رہا ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے حوالے سے ہماری اپنی ترجیحات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کی رجسٹریشن اسکیم کے حوالے سے آنے والے دنوں میں دیکھیں گے، امید ہے اس اسکیم میں بہتری آئے گی اور اس حوالے سے کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔

قبل ازیں، بزنس سمٹ 2024 میں ’’ترقی کے لیے تعاون‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے زرعی شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور افراط زر کو قابو کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں جبکہ حکومی اقدامات کے باعث ٹیکس وصولی میں اضافہ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پالیسی ریٹ برقرار رکھا گیا ہے۔ حکومت زراعت اور صنعتی شعبے کی ترقی کو فروغ دے رہی ہے، حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ مالی سال 2024 میں جی ڈی پی میں اضافے کی توقع ہے اور افراط زر کی شرح کا امکان ہے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایس بی اے ناگزیر تھا۔ آئی ایم ایف سے ہم مائیکرو اکنامک استحکام کے لیے پروگرام لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ کبھی اوپر جاتی ہے کبھی نیچے جاتی ہی اور ان ایام میں اسٹاک مارکیٹ تاریخی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس معاملات کے کیسز آئندہ تین چار ماہ میں ختم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح آئندہ تین چار سالوں میں 13 سے 14 فیصد تک لے جائیں گے۔ مالی سال 2024 میں جی ڈی پی میں 2.6 فیصد اضافے کی توقع ہے، افراط زر کی شرح 24 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے جو کہ مالی سال 2023 میں 29.2 فیصد سے کم ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور مالیاتی خسارہ پائیدار حدوں میں رہنے کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ جولائی تا فروری مالی سال 2024 کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم میں 33.6 فیصد اضافہ ہوا، بہتر فصلوں کی وجہ سے صنعتی شعبے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ سی پی آئی افراط زر مارچ 2024 میں 20.7 فیصد سالانہ پر پہنچ گیا جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں 35.4 فیصد تھا۔ حکومت مہنگائی کے دباؤ پر قابو پانے اور معاشرے کے کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جولائی تا مارچ مالی سال 2024 کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں 30.2 فیصد اضافہ ہوا اور ایف بی آر نے 6707 بلین روپے کے مقررہ ہدف سے زیادہ جمع کیا۔ جولائی تا فروری مالی سال 2024 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال 3.9 بلین ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 74 فیصد کم ہو کر 1.0 بلین ڈالر رہ گیا۔ اسی دوران تجارتی خسارہ گزشتہ سال 22.7 ارب ڈالر کے مقابلے میں 24.9 فیصد کم ہو کر 17.0 ارب ڈالر رہ گیا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 اپریل 2024 تک بڑھ کر 13.3 بلین ڈالر ہوگئے جو جون 2023 میں 9.7 بلین ڈالر تھے۔ اسٹیٹ بینک نے افراط زر کے دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے جون 2023 سے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا ہے۔ حکومت سولرائزیشن، یوتھ انٹرپرینیورشپ، آئی ٹی سیکٹر کے فروغ، ایس ایم ایز، سرمایہ کاری کی برآمد میں سہولت اور صنعتی پیداوار پر توجہ دے کر زراعت اور صنعتی شعبے کی ترقی کو فروغ دے رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں